صحيح البخاري
كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ -- کتاب: لیلۃ القدر کا بیان
3. بَابُ تَحَرِّي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ:
باب: شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔
حدیث نمبر: 2018
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي رَمَضَانَ الْعَشْرَ الَّتِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ، فَإِذَا كَانَ حِينَ يُمْسِي مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً تَمْضِي، وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، رَجَعَ إِلَى مَسْكَنِهِ، وَرَجَعَ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ، وَأَنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَأَمَرَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ، ثُمَّ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ، وَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، فَابْتَغُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وَابْتَغُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَاسْتَهَلَّتِ السَّمَاءُ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ فَأَمْطَرَتْ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، فَبَصُرَتْ عَيْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، انْصَرَفَ مِنَ الصُّبْحِ، وَوَجْهُهُ مُمْتَلِئٌ طِينًا وَمَاءً".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیج میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آ جاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آ جاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی (مسجد ہی میں) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آ جانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس (دوسرے) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہراً ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہئے۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے اور مجھے یہ رات (شب قدر) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوا دی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ (کی طاق راتوں) میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ (چھت سے) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں کی رات کا ذکر ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1766  
´لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
شب قدر سال کی سب سے افضل رات ہے اس کی ایک رات کی عبا دت ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے (القدر: 97/3)

(2)
شب قدر کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے اعتکاف کرنا سنت ہے البتہ جو شخص اعتکاف نہ کر سکے اسے بھی راتیں عبادت میں گزارنے کی کو شش کرنی چاہیے
(3)
  شب قدر بھلائے جا نے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ با ت یا د نہ رہی کہ اس سال کون سی رات شب قدر ہے ہر سال اسی رات میں ہونا ضروری نہیں۔

(4)
شب قدر آخری عشرے کی طا ق راتو ں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے اس لئے جو شخص دس راتیں عبادت نہ کر سکے اسے یہ پا نچ راتیں ضرور عبادت اور تلاوت و ذکر میں گزارنی چاہیں تاکہ شب قدر کی عظیم نعمت سے محروم نہ رہے
(5)
اگرچہ علمائے کرام نے شب قدر کی بعض علامتیں بیان کی ہیں لیکن ثواب کا دارومدار اس چیز پر نہیں کہ عبادت کرنے والے کو یہ رات معلوم ہوئی یا نہیںں اس لئے اس پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں فلاں فلاں علامت کا احسا س نہیں ہوا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1766   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2018  
2018. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گزرجاتی اور اکیسویں رات کی آمد ہوتی تو اپنے گھر واپس آجاتے اور وہ لوگ بھی اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے جو آپ کےساتھ اعتکاف کرتے تھے۔ پھر ایک رمضان میں جب آپ اعتکاف سے تھے تو اس رات بھی مسجد میں مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر واپس آنے کی تھی۔ آپ نے وہاں لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق انھیں کچھ احکام بتائے، پھر فرمایا: میں اس دوسرے عشرے میں اعتکاف کرتا تھا لیکن اب مجھ پر واضح ہوا ہے کہ میں آخری عشرے میں اعتکاف کروں، اس لیے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں رہا ہے وہ اپنی اعتکاف گاہ میں رہے اور مجھے اس رات شب قدر دکھائی گئی تھی پھر وہ بھلادی گئی اسے تم آخری عشرے میں اور اس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2018]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق اس سال اکیسویں تاریخ کو شب قدر تھی۔
(2)
دیگر احادیث سے ستائیسویں رات کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ شب قدر ہے۔
عین ممکن ہے کہ جس سال صحابۂ کرام ؓ کو اس رات کا ادراک ہوا اس سال وہی شب قدر تھی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی رات شب قدر ہو گی۔
اس رات کی تعیین کے متعلق علمائے امت کے بہت سے اقوال ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں 46 اقوال نقل فرمائے ہیں۔
آخر میں اپنا فیصلہ بایں الفاظ دیا ہے:
ان سب میں ترجیح اس قول کو ہے کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے۔
شوافع نے اکیسویں رات کو شب قدر قرار دیا ہے اور جمہور ستائیسویں رات کو ترجیح دیتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جا سکتا، نیز یہ ایک پوشیدہ رات ہے اور اس رات کے مخفی ہونے میں حکمت یہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے کوشش جاری رکھی جائے۔
اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اسی رات پر ہی اکتفا کر لیا جاتا۔
(فتح الباري: 338/4)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2018