صحيح البخاري
كِتَاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ -- کتاب: لیلۃ القدر کا بیان
5. بَابُ الْعَمَلِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ:
باب: رمضان کے آخری عشرہ میں زیادہ محنت کرنا۔
حدیث نمبر: 2024
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1767  
´رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں (عبادت) میں ایسی محنت کرتے تھے کہ ویسی آپ اور دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1767]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
افضل ایام میں نیک اعمال کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

(2)
رمضان کے آخری دس دن سب کے سب فضیلت کے حامل ہیں اسی طرح شب قدر کے علاوہ آ خری عشرے کی با قی را تیں بھی رمضان کی دوسری راتوں کی نسبت افضل ہیں اس لئے ان ایام میں ذکر و تلاو ت و صدقات و خیرات جیسی نیکیو ں میں پہلے سے اضا فہ کر دینا چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1767   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 569  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب (رمضان کا) آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے، رات بھر جاگتے رہتے اور اپنی بیویوں کو بھی جگاتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 569]
569 لغوی تشریح:
«شَدَّ مِنْزَرَهُ» «مِئْزَر» کی میم کے نیچے کسرہ اور ہمزہ ساکن ہے، یعنی اپنی چادر مضبوطی سے باندھ لیتے۔ یہ دراصل کنایہ ہے کہ آپ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، اس کے لیے بڑی کوشش کرتے اور سب کچھ چھوڑ کر عبادت میں لگ جاتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبادت کی وجہ سے اپنی ازواج مطہرات سے علیحدگی اختیار کر لیتے۔
«وَاَحْيَالَيْلَهُ» یعنی نماز وغیرہ میں ساری رات بیدار رہتے یا اس کا اکثر حصہ جاگتے۔
«وَاَيْقَظَ اَهْلَهُ» اپنے اہل خانہ کو بھی نماز و عبادت کے لیے نیند سے اٹھاتے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 569   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2024  
2024. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2024]
حدیث حاشیہ:
کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ اس عشرہ میں عبادت الٰہی کے لیے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔
اور آنحضرت ﷺ کا یہ سارا عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)
اے ایمان والو! اللہ کے رسول تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی اقتداءکرنا تمہاری سعادت مندی ہے۔
یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الٰہی کرنا بڑا کار ثواب ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت الٰہی کرنا بہت ہی بڑا کار ثواب ہے۔
لہٰذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت ہو سکے غنیمت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2024   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2024  
2024. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2024]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ آخری عشرہ خوب عبادت کرتے ہوئے گزارا جائے۔
رسول اللہ ﷺ اس عشرے میں اپنی بیویوں سے الگ ہو جاتے، بستر کو لپیٹ دیتے اور خوب کمر بستہ ہو کر ان راتوں کا اہتمام کرتے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے کہ جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
(سنن ابن ماجة، الصوم، حدیث: 1767)
اس کوشش اور محنت کی تفصیل امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، رات کو عبادت کر کے اسے زندہ رکھتے اور اپنے اہل و عیال کو عبادت کے لیے بیدار کرتے۔
حضرت زینب بنت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے:
رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے تو گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھا دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دل کی پاکیزگی اور بالیدگی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پروا ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔
کثرت سے کھانے، پینے، گفتگو کرنے اور سونے سے دل منتشر اور غافل ہو جاتا ہے، ماہ مبارک میں ان تمام چیزوں پر کنٹرول ہوتا ہے جو قرب الٰہی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
اس مبارک مہینہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب خاص کو محسوس کرتا ہے۔
ویسے تو سارا مہینہ اللہ کی طرف سے خیرات و برکات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن آخری عشرہ مخصوص انوار و تجلیات کا حامل ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ اس آخری عشرے میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ مذکورہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
(2)
ہمارے ہاں بدقسمتی سے انفرادی عبادت کے بجائے اجتماعی عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے، طاق راتوں میں تقاریر اور دروس ہوتے ہیں، سارا عشرہ بہترین ماکولات اور مشروبات کے دور کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ان چیزوں کا نشان تک نہیں ملتا۔
ہمیں اس آخری عشرے کے قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو سو کر یا کھانے پینے یا تقاریر سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ انفرادی عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
(3)
اس عشرے میں دو عمل اللہ کے ہاں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، یعنی اعتکاف اور شب قدر کی تلاش۔
شب قدر کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس رات صرف بیدار رہنا کوئی عبادت نہیں بلکہ ذکر و فکر، نوافل، تلاوت قرآن اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنے میں مصروف رہنا عبادت ہے۔
اعتکاف کے متعلق کیا شرعی ہدایات ہیں اس کے لیے امام بخاری ؒ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ایک بڑا عنوان قائم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے اور اپنے ہاں اجر جزیل سے نوازے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2024