سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
29. بَابُ : السَّوْمِ
باب: مول بھاؤ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2205
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَقَالَ لِي:" أَتَبِيعُ نَاضِحَكَ هَذَا بِدِينَارٍ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ نَاضِحُكُمْ إِذَا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ:" فَتَبِيعُهُ بِدِينَارَيْنِ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ"، قَالَ: فَمَا زَالَ يَزِيدُنِي دِينَارًا دِينَارًا، وَيَقُولُ: مَكَانَ كُلِّ دِينَارٍ وَاللَّهُ يَغْفِرُ لَكَ حَتَّى بَلَغَ عِشْرِينَ دِينَارًا، فَلَمَّا أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ أَخَذْتُ بِرَأْسِ النَّاضِحِ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا بِلَالُ أَعْطِهِ، مِنَ الْغَنِيمَةِ عِشْرِينَ دِينَارًا"، وَقَالَ:" انْطَلِقْ بِنَاضِحِكَ فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى أَهْلِكَ"..
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو؟ اور اللہ تمہیں بخشے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو آپ ہی کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا دو دینار میں بیچتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہوئے اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! انہیں مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو اور مجھ سے فرمایا: اپنا اونٹ بھی لے جاؤ، اور اسے اپنے گھر والوں میں پہنچا دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشروط 4 (2718) تعلیقا، ً صحیح مسلم/الرضاع 16 (715)، سنن النسائی/البیوع 75 (4645)، سنن الترمذی/البیوع 30 (1253)، (تحفة الأشراف: 3101)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/373) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حدیث سے یہ معلوم ہو کہ بھاؤ تاؤ کرنا درست اور جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیچنے والا ایک جانور کو بیچے اور کسی مقام تک اس پر سواری کرنے کی شرط کر لے تو جائز ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ جب لوٹ کر اپنے گھر آئے اور گھر والوں سے اونٹ کے بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ملامت کی کہ گھر کے کاموں کے لئے ایک ہی اونٹ تھا اس کو بھی بیچ ڈالا، لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کا خیال نہ کیا، اور اپنے وعدے کے مطابق اونٹ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے، آپ نے بیس دینار دیئے اور اونٹ بھی، اور فرمایا کہ اونٹ اپنے گھر لے جاؤ، شاید وحی سے آپ کو یہ حال معلوم ہو گیا ہو کہ گھر والے اس خرید و فروخت کے حق میں نہیں ہیں اور شاید محض حسن اخلاق ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2205  
´مول بھاؤ کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو؟ اور اللہ تمہیں بخشے میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو آپ ہی کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا دو دینار میں بیچتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2205]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت جابررضی اللہ عنہ عبدالله بن عمرو بن حرام ؓ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کی چھ یا نو بیٹیاں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بہنیں ان کی زیر کفالت تھیں۔ (صحيح البخاري، المغازي، باب ﴿إِذْهَمَّتْ طَاِئفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلا۔
۔
۔
، حديث: 4056)

اس ليے رسول اللهﷺ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔

(2)
  اگر خریدار محسوس کرے کہ بیچنے والا اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے اپنی چیز کی قیمت جائز حد سے بہت کم طلب کر رہا ہے تو احسان کا تقاضا ہے کہ اسے پوری قیمت دی جائے۔

(3)
  قیمت پہلے وصول کرکے سامان بعد میں خریدار کے حوالے کرنا جائز ہے اگروہ چیز اس وقت بھی بیچنے والے کا پاس موجود ہو لیکن ا س شرط میں خریدار الو  اور فروخت کار دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔

(4)
  مستحق پر اس انداز سے احسان کرنا کہ بظاہر وہ کاروباری معاملہ معلوم ہو، اورممنونِ احسان شخص شرمندگی محسوس نہ کرے، بہت عالی ظرفی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2205   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048