سنن ابن ماجه
كتاب التجارات -- کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
48. بَابُ : الصَّرْفِ وَمَا لاَ يَجُوزُ مُتَفَاضِلاً يَدًا بِيَدٍ
باب: بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 2254
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، أَنَّ مُسْلِمَ بْنَ يَسَارٍ ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدٍ حَدَّثَاهُ، قَالَا: جَمَعَ الْمَنْزِلُ بَيْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَمُعَاوِيَةَ إِمَّا فِي كَنِيسَةٍ وَإِمَّا فِي بِيعَةٍ، فَحَدَّثَهُمْ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ ، فقَالَ:" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْوَرِقِ بِالْوَرِقِ، وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ، وَالْبُرِّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرِ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرِ بِالتَّمْرِ"، قَالَ أَحَدُهُمَا: وَالْمِلْحِ بِالْمِلْحِ وَلَمْ يَقُلْهُ الْآخَرُ" وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِيعَ الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرَ بِالْبُرِّ يَدًا بِيَدٍ كَيْفَ شِئْنَا".
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کسی کلیسا یا گرجا میں اکٹھا ہوئے، تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور گیہوں کو گیہوں سے، اور جو کو جو سے، اور کھجور کو کھجور سے بیچنے سے منع کیا ہے۔ (مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے: اور نمک کو نمک سے اور دوسرے نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے) اور ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم گیہوں کو جو سے اور جو کو گیہوں سے نقدا نقد (برابر یا کم و بیش) جس طرح چاہیں بیچیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/البیوع 41 (4564)، 42 (4566)، (تحفة الأشراف: 5113)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/320)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2621) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2254  
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔`
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کسی کلیسا یا گرجا میں اکٹھا ہوئے، تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور گیہوں کو گیہوں سے، اور جو کو جو سے، اور کھجور کو کھجور سے بیچنے سے منع کیا ہے۔ (مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے: اور نمک کو نمک سے اور دوسرے نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے) اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2254]
اردو حاشہ:
فائدہ:
بعض علماء کےنزدیک یہ حکم صرف مندرجہ ذیل اشیاء کے لیے ہے:
سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔
دوسرے علماء کے نزدیک جن اشیاء کا ذکر حدیث میں نہیں، ان كا بھی یہی حکم ہے کہ ایک جنس کی اشیاء کا (اچھی بری قسم کی وجہ سے)
کمی بیشی کے ساتھ باہم تبادلہ نہیں ہونا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2254   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 18]
اردو حاشہ:
(1)
سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔
البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔
اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔
مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔

(2)
حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔
تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔
اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔
اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔

(3)
صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔

(4)
جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 18