صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان
8. بَابُ هَلْ يَخْرُجُ الْمُعْتَكِفُ لِحَوَائِجِهِ إِلَى بَابُ الْمَسْجِدِ:
باب: کیا معتکف اپنی ضرورت کے لیے مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2035
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِي اعْتِكَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً، ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا يَقْلِبُهَا، حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ بَابَ الْمَسْجِدِ، عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ مَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَسَلَّمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى رِسْلِكُمَا، إِنَّمَا هِيَ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَبُرَ عَلَيْهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنَ الْإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے امام زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں، تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی سوچ کی ضرورت نہیں، یہ تو (میری بیوی) صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا، سبحان اللہ! یا رسول اللہ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 68  
´انسان کے جسم میں جن داخل ہونا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الانسان مجْرى الدَّم» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح جاری ہے جس طرح خون تمام رگوں میں جاری ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 68]

تخریج:
[صحیح مسلم 5678]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے جسم میں جن داخل ہو سکتا ہے اور اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے۔
بخاری [2038] اور مسلم [5679] نے اس مفہوم کی روایت سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا سے بیان کر رکھی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1779  
´معتکف کے گھر والے مسجد میں آ کر اس سے مل سکتے ہیں۔`
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1779]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کرنے والے سے دوسرے لوگ مل جل سکتے ہیں اور ضروری بات چیت کر سکتے ہیں۔

(2)
اعتکاف والے سے اس کی بیوی بھی مسجد میں آ کر ملاقات کر سکتی ہے۔

(3)
متعکف کسی ضرورت سے اعتکا ف کی جگہ سے اٹھ کر مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے۔

(4)
عالم کو اپنی عزت و شرف کا خیال رکھنا چا ہیے اور لوگوں کو ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ شک وشبہ کا اظہا ر کریں۔

(5)
خاوند اپنی بیوی کا نام لے سکتا ہے اور اسے نام لے کر بلا بھی سکتا ہے۔

(6)
  ان دو صحابیو ں نے رسول اللہ ﷺ کی اس بات سے تکلیف محسوس کی کیونکہ انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے۔

(7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کا یہ احساس دور کر نے کے لئے وضاحت فرما دی کہ تم نے میرے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سوچی لیکن شیطان وسوسہ ڈال سکتا ہے۔

(8)
نبی ﷺ کی یہ وضاحت اس لئے باعث رحمت تھی کیونکہ اس طرح شیطان کے وسوسے کا راستہ بند ہو گیا ورنہ نبی ﷺ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی سوچ ایمان سے محرومی کا با عث بھی ہو سکتی تھی۔

(9)
تعجب کے موقعہ پر سبحان اللہ کہنا درست ہے۔

(10)
شیطان جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے اس کا وسوسہ ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان کے ایمان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے ان وسوسوں کے شر سے بچنے کے لئے لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1779   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4994  
´حسن ظن کا بیان۔`
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا: تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4994]
فوائد ومسائل:
1) اعتکاف کے دوران میں جائزہے کہ بیوی معتکف کو ملنے کے لئے آئےاور وہ آپس میں گفتگو کریں۔

2) معتکف اپنی فطری ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔
مثلا قضائے حاجت یا ضروری غسل لے لئے جبکہ مسجد میں ان کا معقول انتظام نہ ہو، اسی طرح شدید بیماری کی حالت میں بھی جبکہ مسجد میں طبی امداد پہنچنے کے مواقع نہ ہوں تو اس قسم کے تمام حالات میں مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔

3) انسان کو تہمت اور شبہے کے مقامات سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیئے۔
نبیﷺ نے اپنی اہلیہ محترمہ کا تعارف کرا کے اس شہبے کا ازالہ فرما دیا۔

4) شیطان انسان کے جسم میں ایسے گردش کرتا ہے جیسے خون اس لیے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے تعوذ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) بہت زیادہ بڑھنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4994   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2035  
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف ضروری کام کے لیے مقام اعتکاف سے باہر نکل سکتا ہے۔
آپ ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ اس لیے نکلے کہ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔
کہتے ہیں کہ ان کا مکان بھی مسجد سے دور تھا، بعض روایتوں میں ان دیکھنے والوں کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ جانا چاہا تھا، آنحضرت ﷺ نے حقیقت حال سے آگاہ فرمانے کے لیے ان کو بلایا۔
معلوم ہوا کہ کسی ممکن شک کو دور کر دینا بہرحال اچھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2035   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2035  
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
(1)
دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں کچھ وقت مسجد میں قیام کرنے کو شرعاً اعتکاف کہا جاتا ہے۔
اگر مسجد میں قیام کے دوران تقرب الٰہی کی نیت نہیں یا تقرب الٰہی کی نیت تو ہے لیکن مسجد میں قیام نہیں تو ان دونوں صورتوں کو شرعی اعتکاف نہیں کہا جائے گا۔
(2)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں قیام کے دوران اپنی کوئی دنیاوی ضرورت پوری کرنا اعتکاف کے منافی ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اسی موضوع کو بیان کیا ہے کہ معتکف اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر صرف مسجد کے دروازے تک آ سکتا ہے اور ایسا کرنا اعتکاف کے منافی نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھر مسجد نبوی کے آس پاس تھے۔
ایک دفعہ جب آپ معتکف ہوئے تو رات کے وقت گھریلو معاملات کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے ازواج مطہرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
حضرت صفیہ ؓ کا گھر ذرا دور تھا۔
وہ رات کے وقت دیر سے آئیں۔
جب ازواج مطہرات مجلس کے اختتام پر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اٹھیں تو حضرت صفیہ بھی تیار ہو گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک لیا، ایک تو دیر سے آنے کی بنا پر تاکہ انہیں بھی دوسری ازواج کی طرح پورا وقت آپ کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملے، نیز اس لیے بھی کہ ان کا گھر دور تھا اور انہیں گھر تک پہنچانے کے لیے آپ نے انہیں روک لیا۔
اس دوران میں دو انصاری حضرات سے ملاقات ہوئی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں مسجد کے اندر قیام کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ معتکف اس دوران مسجد میں اپنی کوئی دنیاوی ضرورت نہیں پوری کر سکتا۔
ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اعتکاف کے منافی نہیں۔
(فتح الباري: 353/4،354)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2035