سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
7. بَابُ : الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ
باب: مدعی اپنے دعوے کے حق میں گواہی پیش کرے اور مدعیٰ علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ ہے) اس پر قسم کھائے۔
حدیث نمبر: 2321
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمُ ادَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ وَأَمْوَالَهُمْ وَلَكِنْ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق دے دیا جائے، تو لوگ دوسروں کی جان اور مال کا (ناحق) دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الرہن 6 (2514)، الشہادات 20 (2668)، تفسیر سورة آل عمران 3 (4552)، صحیح مسلم/الاقضیة 1 (1711)، سنن ابی داود/الاقضیة 23 (3619)، سنن الترمذی/الاحکام 12 (1342)، سنن النسائی/آداب القضاة 35 (5427)، (تحفة الأشراف: 5792)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/253، 288، 343، 351، 356، 363) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہو اور مدعی علیہ قسم کھا لے تو وہ دعویٰ سے بری ہو گیا، اگر مدعی علیہ قسم اٹھانے پر تیار نہ ہو تو وہ دعویٰ کے مطابق مدعی کا حق ادا کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2321  
´مدعی اپنے دعوے کے حق میں گواہی پیش کرے اور مدعیٰ علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ ہے) اس پر قسم کھائے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق دے دیا جائے، تو لوگ دوسروں کی جان اور مال کا (ناحق) دعویٰ کر بیٹھیں گے، لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیئے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2321]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  آپس کے جھگڑوں کا فیصلہ گواہی پر ہوتا ہے۔
اس میں گواہ کا قابل اعتماد ہونا ضروری ہے اس لیے خرید وفروخت کے موقع پر گواہ بنا لینا ضروری ہے خاص طور پر جب کہ سودا قیمتی ہو یا ادھار کی رقم اتنی زیادہ ہو جس کےادا ہونے یا نہ ہونے کےبارے میں جھگڑا ہونے کا امکان ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاستَشهِدوا شَهيدَينِ مِن رِ‌جالِكُم ۖ فَإِن لَم يَكونا رَ‌جُلَينِ فَرَ‌جُلٌ وَامرَ‌أَتانِ مِمَّن تَر‌ضَونَ مِنَ الشُّهَداءِ﴾ (البقرہ 2: 282)
 اور اپنے مردوں میں سے دو مرد گواہ مقرر کر لو۔
اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کیاکرو۔

(2)
جب کسی مقدمے میں مدعی گواہ پیش نہ کر سکے تو مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی اور وہ اللہ کی قسم کھا کر اپنے موقف کے برحق ہونے کی گواہی دے گا۔

(3)
  مدعی کی قسم پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے گواہ پیش کرنا ہی ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2321   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1210  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کرنے سے حق دے دیا جائے تو لوگ دوسرے لوگوں کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ کریں گے لیکن مدعا علیہ کے ذمہ قسم لازم ہے۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ گواہی (یا دلیل) مدعی کے ذمہ اور قسم اس کے ذمہ جو اس کا انکار کرے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1210»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التفسير، باب: ﴿إن الذين يشترون بعهد الله وأيما نهم ثمنًا قليلًا...﴾ ، حديث:4552، ومسلم، الأقضية، باب اليمين علي المدعي عليه، حديث:1711، وحديث البيهقي:8 /123، في سنده مسلم بن خالد الزنجي، وللحديث شواهدفهو حسن.»
تشریح:
اس حدیث میں قضا کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ مدعی اپنا دعویٰ دلائل سے ثابت کرے اور دو گواہ پیش کرے۔
اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر مدعا علیہ قسم دے گا۔
جمہور کا یہی مذہب ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1210