صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان
11. بَابُ زِيَارَةِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي اعْتِكَافِهِ:
باب: عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 2038
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ. ح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ،" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَعِنْدَهُ أَزْوَاجُهُ فَرُحْنَ، فَقَالَ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ: لَا تَعْجَلِي حَتَّى أَنْصَرِفَ مَعَكِ، وَكَانَ بَيْتُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا، فَلَقِيَهُ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَنَظَرَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَجَازَا، وَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، قَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُلْقِيَ فِي أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی (دوسری سند) اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں (اعتکاف میں) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو! ادھر سنو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں (جو میری بیوی ہیں) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ! یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 68  
´انسان کے جسم میں جن داخل ہونا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الانسان مجْرى الدَّم» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح جاری ہے جس طرح خون تمام رگوں میں جاری ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 68]

تخریج:
[صحیح مسلم 5678]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے جسم میں جن داخل ہو سکتا ہے اور اسے طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود نہیں ہے۔
بخاری [2038] اور مسلم [5679] نے اس مفہوم کی روایت سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا سے بیان کر رکھی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1779  
´معتکف کے گھر والے مسجد میں آ کر اس سے مل سکتے ہیں۔`
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئیں، اور آپ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے، عشاء کے وقت کچھ دیر آپ سے باتیں کیں، پھر اٹھیں اور گھر جانے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ انہیں پہنچانے کے لیے اٹھے، جب وہ مسجد کے دروازہ پہ پہنچیں جہاں پہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھی تو قبیلہ انصار کے دو آدمی گزرے، ان دونوں نے آپ کو سلام کیا، پھر چل پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی (میری بیوی) ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1779]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کرنے والے سے دوسرے لوگ مل جل سکتے ہیں اور ضروری بات چیت کر سکتے ہیں۔

(2)
اعتکاف والے سے اس کی بیوی بھی مسجد میں آ کر ملاقات کر سکتی ہے۔

(3)
متعکف کسی ضرورت سے اعتکا ف کی جگہ سے اٹھ کر مسجد کے دروازے تک جا سکتا ہے۔

(4)
عالم کو اپنی عزت و شرف کا خیال رکھنا چا ہیے اور لوگوں کو ایسا موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ شک وشبہ کا اظہا ر کریں۔

(5)
خاوند اپنی بیوی کا نام لے سکتا ہے اور اسے نام لے کر بلا بھی سکتا ہے۔

(6)
  ان دو صحابیو ں نے رسول اللہ ﷺ کی اس بات سے تکلیف محسوس کی کیونکہ انھیں محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتے۔

(7)
رسول اللہ ﷺ نے ان کا یہ احساس دور کر نے کے لئے وضاحت فرما دی کہ تم نے میرے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سوچی لیکن شیطان وسوسہ ڈال سکتا ہے۔

(8)
نبی ﷺ کی یہ وضاحت اس لئے باعث رحمت تھی کیونکہ اس طرح شیطان کے وسوسے کا راستہ بند ہو گیا ورنہ نبی ﷺ کے بارے میں کوئی ایسی ویسی سوچ ایمان سے محرومی کا با عث بھی ہو سکتی تھی۔

(9)
تعجب کے موقعہ پر سبحان اللہ کہنا درست ہے۔

(10)
شیطان جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے اس کا وسوسہ ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان کے ایمان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے ان وسوسوں کے شر سے بچنے کے لئے لاحول ولا قوۃ الا باللہ اور اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1779   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4994  
´حسن ظن کا بیان۔`
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں ایک رات آپ کے پاس آپ سے ملنے آئی تو میں نے آپ سے گفتگو کی اور اٹھ کر جانے لگی، آپ مجھے پہنچانے کے لیے میرے ساتھ اٹھے اور اس وقت وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے گھر میں رہتی تھیں، اتنے میں انصار کے دو آدمی گزرے انہوں نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے، آپ نے فرمایا: تم دونوں ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ان دونوں نے کہا: سبحان اللہ، اللہ کے رسول! (یعنی کیا ہم آپ کے سلسلہ میں بدگمانی کر سکتے ہیں) آپ نے فرمایا: شیطان آدمی میں اسی طرح پھرتا ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4994]
فوائد ومسائل:
1) اعتکاف کے دوران میں جائزہے کہ بیوی معتکف کو ملنے کے لئے آئےاور وہ آپس میں گفتگو کریں۔

2) معتکف اپنی فطری ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔
مثلا قضائے حاجت یا ضروری غسل لے لئے جبکہ مسجد میں ان کا معقول انتظام نہ ہو، اسی طرح شدید بیماری کی حالت میں بھی جبکہ مسجد میں طبی امداد پہنچنے کے مواقع نہ ہوں تو اس قسم کے تمام حالات میں مسجد سے باہر جانا جائز ہے۔

3) انسان کو تہمت اور شبہے کے مقامات سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہیئے۔
نبیﷺ نے اپنی اہلیہ محترمہ کا تعارف کرا کے اس شہبے کا ازالہ فرما دیا۔

4) شیطان انسان کے جسم میں ایسے گردش کرتا ہے جیسے خون اس لیے اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے تعوذ (أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم) بہت زیادہ بڑھنا چاہئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4994   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2038  
2038. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: (جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2038]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ اشْتِغَالِ الْمُعْتَكِفِ بِالْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ مِنْ تَشْيِيعِ زَائِرِهِ وَالْقِيَامِ مَعَهُ وَالْحَدِيثِ مَعَ غَيْرِهِ وَإِبَاحَةُ خَلْوَةِ الْمُعْتَكِفِ بِالزَّوْجَةِ وَزِيَارَةُ الْمَرْأَةِ لِلْمُعْتَكِفِ وَبَيَانُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَإِرْشَادُهُمْ إِلَى مَا يَدْفَعُ عَنْهُمُ الْإِثْمَ وَفِيهِ التَّحَرُّزُ مِنَ التَّعَرُّضِ لِسُوءِ الظَّنِّ وَالِاحْتِفَاظُ مِنْ كَيَدِ الشَّيْطَان والاعتذار قَالَ بن دَقِيقِ الْعِيدِ وَهَذَا مُتَأَكِّدٌ فِي حَقِّ الْعُلَمَاءِ وَمَنْ يُقْتَدَى بِهِ فَلَا يَجُوزُ لَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا فِعْلًا يُوجِبُ سُوءَ الظَّنِّ بِهِمْ وَإِنْ كَانَ لَهُمْ فِيهِ مَخْلَصٌ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ إِلَى إِبْطَالِ الِانْتِفَاعِ بِعِلْمِهِمْ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُبَيِّنَ لِلْمَحْكُومِ عَلَيْهِ وَجْهَ الْحُكْمِ إِذَا كَانَ خَافِيًا نَفْيًا لِلتُّهْمَةِ وَمِنْ هُنَا يَظْهَرُ خَطَأُ مَنْ يَتَظَاهَرُ بِمَظَاهِرِ السُّوءِ وَيَعْتَذِرُ بِأَنَّهُ يُجَرِّبُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِهِ وَقَدْ عَظُمَ الْبَلَاءُ بِهَذَا الصِّنْفِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَفِيهِ إِضَافَةُ بُيُوتُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِنَّ وَفِيهِ جَوَازُ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ لَيْلًا وَفِيهِ قَوْلُ سُبْحَانَ اللَّهِ عِنْدَ التَّعَجُّب الخ (فتح الباري)
مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔
اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ ﷺ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔
ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔
اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔
اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔
ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2038   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2038  
2038. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: (جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2038]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً:
معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔
وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔
اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔
(فتح الباري: 355/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2038