سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
24. بَابُ : الْحَجْرِ عَلَى مَنْ يُفْسِدُ مَالَهُ
باب: جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔
حدیث نمبر: 2354
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، وَكَانَ يُبَايِعُ وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْجُرْ عَلَيْهِ فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَال:" إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ هَا وَلَا خِلَابَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی بات نہیں چلے گی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 68 (3501)، سنن الترمذی/البیوع 28 (1250)، سنن النسائی/البیوع 10 (4490)، (تحفة الأشراف: 1175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/217) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی مجھ کو دھوکہ مت دو، اگر فریب ثابت ہو گا تو معاملہ فسخ کرنے کا مجھ کو اختیار ہو گا، دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مجھ کو تین دن تک اختیار ہے (طبرانی اور بیہقی)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2354  
´جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2354]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
«لاخلابة» دھوکا نہیں۔
کامطلب یہ ہے کہ اگر اس بیع میں تم نے مجھ سے دھوکا کیا تو معلوم ہونے پر میں بیع فسخ کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

(2)
انہیں دھوکا اس لیے لگ جاتا تھا کہ ایک بار سر میں شدید زخم آنے کی وجہ سے ان کی عقل متائر ہو گئی تھی۔

(3)
جس شخص کی عقل درست نہ ہو اسے خرید وفروخت سے حکماً روکا جا سکتا ہے اور اس کی بیع کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اس کے بعد جوشخص اس سے لین دین کرے گا وہ خود ذمہ دار ہو گا کیونکہ وارث اس کے لین دین کو کالعدم قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2354   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1250  
´جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حبان بن منقذ بن عمروانصاری تھے اورایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سرمیں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ لڑاتھا پتھرسے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اورعقل میں کمزوری آ گئی تھی اورزبان میں بھی تغیرآ گیا تھا لیکن ابھی تمیزکے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔

2؎:
مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ وفریب نہیں کیونکہ دین تونصیحت وخیرخواہی کا نام ہے۔

3؎:
ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1250