سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام -- کتاب: قضا کے احکام و مسائل
31. بَابُ : الْقَضَاءِ بِالشَّاهِدِ وَالْيَمِينِ
باب: ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2368
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدِينِيُّ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّهْرِيُّ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الأقضیة 21 (3610، 3611)، سنن الترمذی/الأحکام 13 (1343)، (تحفة الأشراف: 12640) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو اس سے دوسرے گواہ کی جگہ قسم کو قبول کر لیا جائے گا، جمہور کا یہی مذہب ہے، ان کا کہنا ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور ایک قسم جائز ہے البتہ غیر مالی معاملات میں دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک مالی معاملات ہوں یا غیر مالی معاملات دونوں صورتوں میں دو گواہوں کا ہونا لازمی ہے، اس باب کی ساری احادیث ان کے خلاف حجت ہیں ان کا استدلال: «وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ» (سورة الطلاق:2) اور «وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ» (سورة البقرة: 282) سے ہے لیکن ان کا استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے اعلام الموقعین ج ۱ ص۳۲، ۲۸)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1209  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے۔ اس کی تخریج ابوداؤد اور ترمذی نے کی ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1209»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، القضاء، باب القضاء باليمين والشاهد، حديث:3610، والترمذي، الأحكام، حديث:1343، وابن حبان.»
تشریح:
ایک قسم اور ایک گواہی کے ساتھ فیصلہ کرنا اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو‘ اس صورت میں اس سے دوسرے گواہ کی جگہ قسم کو قبول کر لیا جائے گا۔
امام مالک‘ امام شافعی‘ احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اور جمہور علماء کی یہی رائے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مالی معاملات میں تو ایک گواہ اور ایک قسم جائز ہے‘ البتہ غیر مالی معاملات میں دو گواہوں کا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مالی معاملات ہوں یا غیر مالی معاملات دونوں میں دو گواہوں کا ہونا ضروری و لازمی ہے لیکن اس مسئلے میں تقریباً تیس کے قریب احادیث ان کے خلاف حجت ہیں۔
انھوں نے اللہ تعالیٰ کے جس ارشاد سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے: ﴿ وَأَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ﴾ (الطلاق۶۵:۲) اور ﴿ وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ … الخ ﴾ (البقرۃ ۲:۲۸۲) لیکن ان آیات سے ان کا استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل ہی نہیں ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے جو قابل ملاحظہ ہے۔
دیکھیے: (إعلام الموقعین:۱ /۳۲. ۳۸)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1209