صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِكَافِ -- کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان
14. بَابُ الاِعْتِكَافِ فِي شَوَّالٍ:
باب: شوال میں اعتکاف کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2041
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ، وَإِذَا صَلَّى الْغَدَاةَ دَخَلَ مَكَانَهُ الَّذِي اعْتَكَفَ فِيهِ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ أَنْ تَعْتَكِفَ، فَأَذِنَ لَهَا، فَضَرَبَتْ فِيهِ قُبَّةً، فَسَمِعَتْ بِهَا حَفْصَةُ، فَضَرَبَتْ قُبَّةً، وَسَمِعَتْ زَيْنَبُ بِهَا، فَضَرَبَتْ قُبَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَدَاةِ، أَبْصَرَ أَرْبَعَ قِبَابٍ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ فَأُخْبِرَ خَبَرَهُنَّ، فَقَالَ: مَا حَمَلَهُنَّ عَلَى هَذَا آلْبِرُّ، انْزِعُوهَا فَلَا أَرَاهَا، فَنُزِعَتْ فَلَمْ يَعْتَكِفْ فِي رَمَضَانَ، حَتَّى اعْتَكَفَ فِي آخِرِ الْعَشْرِ مِنْ شَوَّالٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید نے، انہیں عمرو بنت عبدالرحمٰن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے۔ آپ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اس جگہ جاتے جہاں آپ کو اعتکاف کے لیے بیٹھنا ہوتا۔ راوی نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ سے اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، اس لیے انہوں نے (اپنے لیے بھی مسجد میں) ایک خیمہ لگا لیا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا (زوجہ مطہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ زینب رضی اللہ عنہا (زوجہ مطہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سنا تو انہوں نے بھی ایک خیمہ لگا لیا۔ صبح کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر لوٹے تو چار خیمے دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقت حال کی اطلاع دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہوں نے ثواب کی نیت سے یہ نہیں کیا، (بلکہ صرف ایک دوسری کی ریس سے یہ کیا ہے) انہیں اکھاڑ دو۔ میں انہیں اچھا نہیں سمجھتا، چنانچہ وہ اکھاڑ دیئے گئے اور آپ نے بھی (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا۔ بلکہ شوال کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 710  
´مسجد میں خیمہ لگانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر پڑھتے، پھر آپ اس جگہ میں داخل ہو جاتے جہاں آپ اعتکاف کرنے کا ارادہ فرماتے، چنانچہ آپ نے ایک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا ارادہ فرمایا، تو آپ نے (خیمہ لگانے کا) حکم دیا تو آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، پھر جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان کے خیمے دیکھے تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خیمے دیکھے تو فرمایا: کیا تم لوگ اس سے نیکی کا ارادہ رکھتی ہو؟ ۱؎، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سال) رمضان میں اعتکاف نہیں کیا (اور اس کے بدلے) شوال میں دس دنوں کا اعتکاف کیا۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 710]
710 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اعتکاف ایک عبادت ہے اور بغیر پردے کے ممکن نہیں، لہٰذا خیمہ کھڑا کرنا ضروری ہے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ایک سے زائد تھیں اور بتقاضائے بشریت سوکنویں میں چپقلش ہوتی ہے، اسی چپقلش کے نتیجے میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے خیمہ لگوایا کہ میں اس سعادت سے پیچھے کیوں رہوں؟ اللہ! اللہ! نیک لوگوں کی چشمک بھی نیکی کے اضافے کے لیے ہوتی ہے، مگر آپ نے اس چشمک کو برداشت نہ کیا، اس لیے آپ نے خود بھی اعتکاف کا ارادہ موقوف فرما دیا۔
➌ اگر کوئی اعتکاف کا ارادہ و نیت کر لے مگر کوئی رکا وٹ پیش آ جائے تو مناسب ہے کہ قضا دے، خواہ رمضان المبارک کے بعد ہی ہو۔
➍ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے اٹھوانے کی اصل وجہ امہات المؤمنین کی آپس کی چشمک اور منافست تھی جس کا حدیث سے اشارہ ملتا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ حکم عورتوں کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی وجہ سے تھا، بالخصوص جبکہ مردوں سے اختلاط کا بھی اندیشہ ہو اگرچہ وہاں خاوند بھی معتکف ہو۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ اگر عدم جواز کی بات ہوتی تو انہیں آغاز ہی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم روک دیتے اور آخر میں یہ نہ فرماتے …… کیا یہ نیکی کا ارادہ رکھتی ہیں……؟
➎ احناف میں عورتوں کے گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج ہے، لیکن یہ بلادلیل ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے اعتکاف صرف مسجد ہی میں ہو سکتا ہے۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا عمل بھی اسی کا مؤید ہے، اس لیے عورت مسجد ہی میں اعتکاف بیٹھے، گھر میں نہیں، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنے کا خدشہ نہ ہو۔ آج کل بعض بڑی مرکزی مسجدوں میں عورتوں کے لیے ایسا محفوظ انتظام کر دیا گیا ہے کہ وہاں مردوں سے اختلاط بھی نہیں ہوتا اور ان کی عزت و عصمت کو بھی خطرہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسی جگہوں پر اس کی گنجائش ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 710   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1771  
´اعتکاف شروع کر کے چھوڑ دینے پر اس کی قضاء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے (بھی) ایک خیمہ لگایا گیا، ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا تو ان کے لیے بھی ایک خیمہ لگایا گیا، جب ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کا خیمہ دیکھا تو انہوں نے بھی حکم دیا تو ان کے لیے بھی خیمہ لگایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1771]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اعتکاف کے لئے مسجد میں ایک جگہ پردہ کر کے اس میں اعتکاف کرنا مسنون ہے
(2)
اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے۔

(3)
عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں لیکن ان کے لئے بھی جائے اعتکا ف مسجد ہی ہے تا ہم مسجد ایسی ہو جہا ں عورتو ں کے لئے مردوں سے الگ ہر چیز کا معقول انتظام ہو تاکہ مردوں کے ساتھ کسی مرحلے میں ان کا اختلاط نہ ہو۔

(4)
عورتوں میں ایک دوسری کی ریس کرنے کی عادت ہوتی ہے خاص طور پر سوکنیں ایک دوسری سے رشک رکھتی ہیں اگر اس سے کوئی مسئلہ پیدا ہو جا ئےتو اسے حکمت سے حل کر لینا چاہیئے
(5)
  اعتکا ف کا پختہ ارادہ کر کے مسجد میں جگہ بنالی گئی ہو پھر کوئی عذر پیش آ جا ئے تو اعتکا ف چھوڑا جا سکتا ہے
(6)
رمضان کے اعتکاف کی قضا کسی دوسرے مہینے میں بھی دی جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1771   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 571  
´اعتکاف اور قیام رمضان کا بیان`
انہی (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اعتکاف کرتیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 571]
571 لغوی تشریح:
«صَلَّي الْفَجَرْ» صبح کی نماز پڑھتے، اکیس رمضان کی نماز فجر مراد ہے۔
«ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ» اسم ظرف کا صیغہ ہے، یعنی اپنے اعتکاف کی جگہ۔ نماز فجر کے بعد آپ اس جگہ میں سب سے منقطع ہو کر علیحدگی اختیار کر لیتے، یہ مطلب نہیں کہ یہ وقت اعتکاف کی ابتداء کا ہے بلکہ اعتکاف کے لیے تو آپ اکیس کی نماز مغرب ہی مسجد میں پڑھتے اور اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رات گزارتے، جب صبح کی نماز پڑھتے تو اعتکاف کی مخصوص جگہ میں تشریف لے جاتے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے۔ اس حدیث کی یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ اس حدیث اور بعد والی احادیث میں تطبیق دی جا سکے جس میں یہ وضاحت ہے کہ آپ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے تھے۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 571   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2464  
´اعتکاف کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرنے کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ جاتے، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کا ارادہ فرمایا، تو خیمہ لگانے کا حکم دیا، خیمہ لگا دیا گیا، جب میں نے اسے دیکھا تو اپنے لیے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا، اسے بھی لگایا گیا، نیز میرے علاوہ دیگر ازواج مطہرات نے بھی خیمہ لگانے کا حکم دیا تو لگایا گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی تو ان خیموں پر آپ کی نگاہ پڑی آپ نے پوچھا: یہ کیا ہیں؟ کیا تمہارا مقصد اس سے نیکی کا ہے؟ ۱؎، پھر آپ صلی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2464]
فوائد ومسائل:
(1) اعتکاف کے لیے حجرہ بنانا اس لیے مستحب ہے کہ معتکف اس جگہ میں دیگر لوگوں سے علیحدہ ہو کر نوافل، تلاوت قرآن کریم اور اذکار وغیرہ میں مشغول رہے۔
یہ لوگوں کے ساتھ بلا ضرورت اختلاط کرے، نہ دوسرے ہی اس کو مشغول کریں۔

(2) خواتین کو بھی مساجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔
گھروں میں اعتکاف کرنا خیرالقرون سے ثابت نہیں۔
گھر میں مقام عبادت کو اصطلاحا مسجد نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس پر معروف مسجد والے احکام ہی منطبق ہوتے ہیں۔

(3) اعمال میں خیر میں بنیادی طور پر اخلاص اور اللہ تعالیٰ ہی کی رضا مقصود ہونی چاہیے۔
ازواج مطہرات کے مذکورہ بالا عمل میں رشک کا پہلو غالب تھا جو اگرچہ عام افراد امت کے لیے تو محمود ہے، مگر ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ان سے بالا تر ہے۔
اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور یہی معنی ہین اس معروف قول کے کہ (حسنات الأبرار سيئات المقربين) یعنی عام صالحین کے عام صالح اعمال بعض اوقات مقرب لوگوں کے حق میں ریب اور تقصیر شمار کیے جاتے ہیں۔

(4) شوہر اگر راضی نہ ہو تو عورت کو اپنا اعتکاف ختم کر دینا چاہیے۔

(5) فوت شدہ یا توڑے گئے اعتکاف کی قضا دینا مستحب ہے، واجب نہیں۔
جیسے کہ ازواج مطہرات کے متعلق اس قسم کا کوئی بیان نہیں ہے کہ ان سے اس اعتکاف کی قضا کروائی گئی۔
(6) غیر رمضان میں اعتکاف کے دوران میں روزہ شرط نہیں ہے۔

(7) اعتکاف کا آغاز کب سے کرنا ہے؟ احادیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔
اس حدیث میں صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہوتے۔
دوسری روایات میں ہے کہ آپ رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے۔
اس اعتبار سے اکثر علماء یہ کہتے ہین کہ معتکف 20 رمضان کو مغرب سے پہلے پہلے مسجد میں آ جائے، رات مسجد میں گزارے اور فجر کی نماز پڑھ کر حجرہ اعتکاف میں داخل ہو جائے۔
اس طرح کرنے سے اس کا رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف کے ساتھ گزرے گا اور مذکورہ دونوں رواتیوں پر عمل ہو جائے گا۔
اس کے برعکس بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیسیوں رمضان کو فجر کی نماز کے بعد اعتکاف کا آغاذ کیا جائے، کیونکہ حدیث میں آپ کے نمازِ فجر کے بعد حجرہ اعتکاف میں داخل ہونے کی صراحت ہے۔
لیکن اس طرح 30 رمضان ہونے کی صورت میں اعتکاف کے 11 دن بن جاتے ہیں جسے عشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل عشرہ اخیر کا اعتکاف کا منقول ہے اس لیے پہلے رائے ہی راجح اور صحیح ہے۔
واللہ اعلم.
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2464   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2041  
2041. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔ حضرت عائشہ ؓ نے آپ سے اجازت طلب کی کہ وہ اعتکاف کریں۔ جب آپ نے انھیں اجازت دی تو انھوں نے مسجد میں خیمہ لگالیا۔ حضرت حفصہ ؓ نےسنا تو انھوں نے بھی خیمہ نصب کرلیا۔ حضرت زینب ؓ نے سنا تو انھوں نے ایک اور خیمہ لگالیا۔ جب رسول اللہ ﷺ اگلے روز گئے تو وہاں پر چارخیمے دیکھے، آپ نے فرمایا: یہ کیا بات ہے؟ تو آپ کو ان کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اس پر انھیں کس چیز نے ابھارا ہے؟کیا وہ نیکی چاہتی ہیں؟ان تمام خیموں کو اکھاڑ دو۔ میں انھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتا۔ چنانچہ وہ تمام خیمے ختم کردیے گئے۔ پھر آپ نےرمضان میں اعتکاف نہ کیا حتیٰ کہ شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2041]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا جبکہ مذکورہ حدیث میں شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے:
ان میں کوئی تعارض نہیں، آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے شوال کے آخری عشرے میں اعتکاف ختم کیا۔
(فتح الباري: 351/4)
لیکن ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے عشرے میں اعتکاف ہو تو وہ تیسرے عشرے میں کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔
(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2464) (2)
معتکف کو چاہیے کہ وہ 20 رمضان کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات مسجد میں گزارے، اگلے روز نماز فجر سے فراغت کے بعد جائے اعتکاف میں داخل ہو جائے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث: 2025)
اور آخری عشرہ بیسویں رمضان کو مغرب کے بعد شروع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا کر کے جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔
(جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 791)
مذکورہ حدیث بخاری میں بھی ہے:
جب صبح کی نماز پڑھتے تو اس جگہ تشریف لے جاتے جہاں اعتکاف کرنا ہوتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2041