سنن ابن ماجه
كتاب الرهون -- کتاب: رہن کے احکام و مسائل
1. بَابُ : الرَّهْنِ
باب: حدثنا ابوبکر بن أبی شیبہ۔
حدیث نمبر: 2439
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ خَبَاب: ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَاتَ وَدِرْعُهُ رَهْنٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِثَلَاثِينَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6239)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 7 (1214)، سنن النسائی/البیوع 81 (4655)، سنن الدارمی/البیوع 44 (2624)، مسند احمد (1/236، 300، 301، 361) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2439  
´حدثنا ابوبکر بن أبی شیبہ۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اور آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2439]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
رہن کا مطلب ہے کہ کسی کے پاس اپنی کوئی چیز بطورضمانت رکھ کر اس سے قرض یا ادھار لینا۔
ضرورت کے وقت اس طرح قرض لینا یا دینا جائز ہے۔

(2)
قرآن مجید میں ارشاد ہے ﴿وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِباً فَرِهنٌ مَّقْبُوْضَة﴾ (البقرۃ2: 283)
اگر تم سفر میں ہو اورتمھیں (قرض کا لین دین)
لکھنے والانہ ملے تو رہن قبضے میں رکھ لیاکرو۔
اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہےکہ رہن کامعاملہ سفر کے ساتھ خاص ہے۔
حدیث سےواضح ہوگیا کہ حضر میں بھی گروی رکھنا جائز ہے۔

(3)
غیر مسلموں سےلین دین کرنا جائز ہے۔
یہ ان سے دلی دوستی نہ رکھنے کےمنافی نہیں۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کےپاس غنائم وغیرہ کا جومال آتا تھا اس کا پانچواں حصہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی ضرورت پرخرچ کرنے کی اجازت تھی تاہم رسول اللہ یہ بھی عام مسلمانوں کی ضروریات میں خرچ فرما دیتےتھے اس لیے رہن شدہ زرہ واپس لینے کی طرف توجہ نہیں ہوئی۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2439