صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ (یعنی رزق حلال کی تلاش میں اپنے کاروبار کو سنبھال لو) اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور جب انہوں نے سودا بکتے دیکھا یا کوئی تماشا دیکھا تو اس کی طرف متفرق ہو گئے اور تجھ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تماشے اور سوداگری سے بہتر ہے اور اللہ ہی ہے بہتر رزق دینے والا“۔
حدیث نمبر: 2048
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، آخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: إِنِّي أَكْثَرُ الْأَنْصَارِ مَالًا، فَأَقْسِمُ لَكَ نِصْفَ مَالِي، وَانْظُرْ أَيَّ زَوْجَتَيَّ هَوِيتَ، نَزَلْتُ لَكَ عَنْهَا، فَإِذَا حَلَّتْ تَزَوَّجْتَهَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَا حَاجَةَ لِي فِي ذَلِكَ، هَلْ مِنْ سُوقٍ فِيهِ تِجَارَةٌ؟ قَالَ: سُوقُ قَيْنُقَاعٍ، قَالَ: فَغَدَا إِلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَأَتَى بِأَقِطٍ وَسَمْنٍ، قَالَ: ثُمَّ تَابَعَ الْغُدُوَّ، فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَزَوَّجْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ قَالَ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ؟ قَالَ: كَمْ سُقْتَ؟ قَالَ: زِنَةَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا (ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور سعد بن ربیع انصاری کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں انصار کے سب سے زیادہ مالدار لوگوں میں سے ہوں۔ اس لیے اپنا آدھا مال میں آپ کو دیتا ہوں اور آپ خود دیکھ لیں کہ میری دو بیویوں میں سے آپ کو کون زیادہ پسند ہے۔ میں آپ کے لیے انہیں اپنے سے الگ کر دوں گا (یعنی طلاق دے دوں گا) جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو آپ ان سے نکاح کر لیں۔ بیان کیا کہ اس پر عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ کیا یہاں کوئی بازار ہے جہاں کاروبار ہوتا ہو؟ سعد رضی اللہ عنہ نے سوق قینقاع کا نام لیا۔ بیان کیا کہ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ پنیر اور گھی لائے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ تجارت کے لیے بازار آنے جانے لگے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زرد رنگ کا نشان (کپڑے یا جسم پر) تھا۔ رسول اللہ نے دریافت فرمایا کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس سے؟ بولے کہ ایک انصاری خاتون سے۔ دریافت فرمایا اور مہر کتنا دیا ہے؟ عرض کیا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے یا (یہ کہا کہ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا تو ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔