سنن ابن ماجه
كتاب الرهون -- کتاب: رہن کے احکام و مسائل
14. بَابُ : مُعَامَلَةِ النَّخِيلِ وَالْكُرُومِ
باب: کھجور اور انگور کی کھیتی کو بٹائی پر دینے کا معاملہ۔
حدیث نمبر: 2469
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ:" لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ أَعْطَاهَا عَلَى النِّصْفِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کو فتح کیا، تو اسے نصف پیداوار کی بٹائی پردے دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1590، ومصباح الزجاجة: 868)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/138) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں مسلم بن کیسان کوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے حدیث صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2469  
´کھجور اور انگور کی کھیتی کو بٹائی پر دینے کا معاملہ۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کو فتح کیا، تو اسے نصف پیداوار کی بٹائی پردے دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2469]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس قسم کے معاہدے کومساقاۃ کہتےہیں کہ باغ میں جو پھل پیدا ہو گا اس میں سے اتنا حصہ (مثلا:
آدھا یا تہائی)

کاشت کار کوملے گا۔
کھیتوں کےبارے میں یہی معاہدہ مزارعت کہلاتا ہے۔

(2)
غیر مسلموں کی جوزمین جنگ کے بعد مسلمانوں کے قبضے میں آئے وہ اسلامی سلطنت کی ملکیت ہوتی ہے۔
اسے آباد کرنے کے لیے مسلمانوں سے بھی معاہدہ کیا جا سکتا ہے غیر مسلموں سے بھی، تاہم وہ کاشت کرنے والے کی ملکیت نہیں بن جاتی۔

(3)
کاشت کار معاہدے کےمطابق حکومت کو پیداوار ادا کرے گا اوراپنا حصہ وصول کرے گا۔
اگر مسلمان کاشت کارکےحصے میں اتناغلہ آیا ہے جس پرزکاۃ فرض ہوتی ہے (بیس من یا زیادہ)
تووہ اس کی زکاۃ (عشر)
بھی ادا کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2469