سنن ابن ماجه
كتاب الرهون -- کتاب: رہن کے احکام و مسائل
16. بَابُ : الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلاَثٍ
باب: تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2472
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خِرَاشِ بْنِ حَوْشَبٍ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ، وَثَمَنُهُ حَرَامٌ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: يَعْنِي الْمَاءَ الْجَارِيَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت (ساجھے داری) ہے: پانی، گھاس اور آگ، ان کی قیمت لینا حرام ہے ۱؎۔ ابوسعید کہتے ہیں: پانی سے مراد بہتا پانی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6418، ومصباح الزجاجة: 869) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن خراش ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، «وثمنہ حرام» کا جملہ شاہد نہ ہونے سے ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون وثمنه حرام
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2472  
´تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں سارے مسلمانوں کی شرکت (ساجھے داری) ہے: پانی، گھاس اور آگ، ان کی قیمت لینا حرام ہے ۱؎۔ ابوسعید کہتے ہیں: پانی سے مراد بہتا پانی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2472]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پانی سے مراد دریا اور چشمے وغیرہ کا پانی ہے۔
ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی فصل کو پانی دے کردوسروں کےلیے چھوڑ دے۔
اگر کسی نے تالاب بنا کراس میں اپنے جانوروں کےلیے پانی جمع کیا ہے اپنی ضرورت کے لیے اپنے خرچ سےکنواں کھدوایا یا نلکا لگوایا ہے تب بھی افضل یہی ہے کہ کسی کو پانی سےمنع نہ کرے البتہ اسے یہ حق ہے کہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرے۔

(2)
خود رو گھاس اورایندھن کی لکڑی کو ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق کاٹ کراستعمال کرسکتا ہے البتہ کاٹنے کے بعد وہ کاٹنے والے کی ملکیت ہوجائے گی چنانچہ وہ اسے فروخت کر سکتا ہے۔

(3)
حدیث میں مذکور تین چیزوں میں تمام مسلمان برابرکا حق رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کی مملکت کےغیرمسلم بھی انھیں استعمال کرنے کا حق رکھتےہیں۔
مسلمانوں کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ وہ اکثریت میں ہوتےہیں اس لیے ان میں جھگڑا اوراختلاف پیداہونے کا امکان زیادہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2472