سنن ابن ماجه
كتاب الرهون -- کتاب: رہن کے احکام و مسائل
18. بَابُ : النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ
باب: پانی بیچنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 2477
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 8 (1565)، (تحفة الأشراف: 2829)، و قد أخرجہ: مسند احمد (3/356) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: زائد پانی سے مراد وہ پانی ہے جو اپنی اور اہل و عیال، جانوروں اور کھیتی کی ضرورت سے زائد ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2477  
´پانی بیچنے کی ممانعت۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2477]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دریاوں اورندی نالوں سےآنے والا پانی انسان کو بلاقیمت حاصل ہوتا ہے جس سے کاشت کاری کی جاتی ہے لہٰذا اس پر سب لوگوں کا حق ہے۔

(2)
پانی کے راستے میں جس کی زمین پہلے آتی ہو اسے حق ہے کہ پہلے اپنی فصل کو پانی دے۔
مناسب حد تک پانی دے کر دوسرے آدمی کی زمین کےلیے پانی چھوڑدینا چاہیے جیسے باب: 20 میں آ رہا ہے۔

(3)
جب پانی ایک جگہ سےدوسری جگہ لےجایا جائے تو وہاں جا کر مناسب قیمت پربیچا جا سکتا ہے جس طرح جنگل سے بلاقیمت لکڑی لا کر شہر میں بیچی جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2477