صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ:
باب: ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟
وَقَالَ حَسَّانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَهْوَنَ مِنَ الْوَرَعِ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ.
‏‏‏‏ اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ «ورع» (پرہیزگاری) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
حدیث نمبر: 2052
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ؟، جَاءَتْ فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَرْضَعَتْهُمَا، فَذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، وَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَيْفَ؟ وَقَدْ قِيلَ: وَقَدْ كَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ أَبِي إِهَابٍ التَّمِيمِيِّ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ایک سیاہ فام خاتون آئیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان دونوں (عقبہ اور ان کی بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور مسکرا کر فرمایا۔ اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو۔ ان کے نکاح میں ابواہاب تمیمی کی صاحب زادی تھیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 88  
´جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ،" أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةً لِأَبِي إِهَابِ بْنِ عَزِيزٍ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُ عُقْبَةَ وَالَّتِي تَزَوَّجَ، فَقَالَ لَهَا عُقْبَةُ: مَا أَعْلَمُ أَنَّكِ أَرْضَعْتِنِي وَلَا أَخْبَرْتِنِي . . .»
. . . عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 88]

تشریح:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑ دیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جو سفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہئیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2052  
2052. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2052]
حدیث حاشیہ:
ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ! وہ جھوٹی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔
یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔
یہاں حضرت امام بخاری ؒ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماء کے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت ﷺ نے شبہ کی بنا پر عقبہ ؓ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔
معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔
ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
و وجه الدلالة منه قوله کیف و قد قیل یشعر بأن أمرہ بفراق امرأته إنما کان لأجل قول المرأة إنها رضعتهما فاحتمل أن یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فأمرہ بفراقها احتیاطا علی قول الأکثر و قیل بل قبل شهادة المراة وحدها علی ذلك۔
یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ ﷺ نے عقبہ ؓ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔
دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔
احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔
اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔
حضرت امام ؒنے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2052   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 973  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے۔ چنانچہ عقبہ نے اس عورت کو جدا کر دیا اور اس خاتون نے دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 973»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب شهادة المرضعة، حديث:5104.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسروعہ‘ (سین کے نیچے کسرہ‘ را ساکن اور واؤ پر فتحہ ہے۔
)
عقبہ بن حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف مکی۔
مشہور صحابی ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔
پچاس ہجری کے بعد تک زندہ رہے۔
وضاحت: «ام یحییٰ» ان کا نام غَنِیَّہ ہے۔
(غین پر فتحہ نون کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدیدہے۔
)
غنیہ بنت ابی اہاب بن عویر تمیمی۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام زینب تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 973   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1151  
´رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آ کر کہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے، اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آ کر کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔ آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیا تو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا، آپ نے (پھر) اپنا چہرہ پھیر لیا۔ میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1151   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3603  
´رضاعت (دودھ پلانے) کی گواہی کا بیان۔`
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عقبہ بن حارث نے اور میرے ایک دوست نے انہیں کے واسطہ سے بیان کیا اور مجھے اپنے دوست کی روایت زیادہ یاد ہے وہ (عقبہ) کہتے ہیں: میں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی، پھر ہمارے پاس ایک کالی عورت آ کر بولی: میں نے تم دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا ہے ۱؎، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چہرہ پھیر لیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ عورت جھوٹی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم؟ اسے جو کہنا تھا اس نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3603]
فوائد ومسائل:
فائدہ: رضاعت کے مسئلے میں بالخصوص اکیلی عورت کی گواہی اور خبر معتبر اورکافی ہے۔
جیسے کہ پیدائش کے وقت بچے کے زندہ ہونے کے بارے میں ایک دایہ کی گواہی معتبر اور کافی ہوتی ہے۔
تاہم خبر یا گواہی دینے والی کا معتمد اور موثوق ہونا شرط ہے۔
علمائے کرام نے خبر اور گواہی میں فرق کیا ہے۔
گواہی ہمیشہ حاکم اور قاضی کے روبرو ہوتی ہے۔
اس وجہ سے ان مسائل کی تفصیلات میں مختلف ہائے نظر موجود ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3603   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2052  
2052. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے اس سے منہ پھیر لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: تم اس عورت کو (بطور بیوی) کیسے رکھ سکتے ہوجبکہ تمہارے بارے میں ایسا کہا گیا ہے؟ حضرت عقبہ بن حارث ؓ کی بیوی ابو اہاب تمیمی کی بیٹی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2052]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے مقصود شبہ اور وسوسے کے درمیان فرق کی وضاحت کرتا ہے کہ شبہ کو چھوڑ دینا مستحب ہے جبکہ وسوسے کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
(2)
شبہ کسی قوی یا کمزور دلیل سے پیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث مذکور سے پتہ چلتا ہے کہ دودھ پلانے کے سلسلے میں اگر کسی عورت نے گواہی دی تو اسے تسلیم کیا جائے گا کیونکہ خبر دینے والی مسلمان ہے اور مسلمان ہمیشہ سچ بولتا ہے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن حارث ؓ کو شبہ سے بچنے کے لیے فرمایا:
تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو۔
اگرچہ ایک عورت کے کہنے سے حتمی حکم ثابت نہیں ہوتا، تاہم شبہ کے لیے ایک عورت کی شہادت ہی کافی ہے،اس لیے تقوے کے طور پر اس عورت کو نکاح میں رکھنے سے پرہیز کرنا اچھا ہے۔
وسوسے کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص خراسان کا رہنے والا ہے وہ بغداد جائے جبکہ اس کا والد بغداد میں رہ چکا ہوتو وہ بغداد میں شادی کرنے سے اس لیے پرہیز کرے کہ شاید اس کے باپ نے بغداد میں شادی کی ہو اور جس عورت سے یہ خراسانی شادی کرنا چاہتا ہے وہ اس کے باپ کی بیٹی اور اس کی بہن ہو۔
شریعت میں اس طرح کے وسوسوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2052