صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
5. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الْوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنَ الْمُشَبَّهَاتِ:
باب: دل میں وسوسہ آنے سے شبہ نہ کرنا چاہئیے۔
حدیث نمبر: 2057
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ قَوْمًا قَالُوا:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَنَا بِاللَّحْمِ، لَا نَدْرِي أَذَكَرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمُّوا اللَّهَ عَلَيْهِ وَكُلُوهُ".
ہم سے احمد بن مقدام عجلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بہت سے لوگ ہمارے یہاں گوشت لاتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ کا نام انہوں نے ذبح کے وقت لیا تھا یا نہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کے اسے کھا لیا کرو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3174  
´ذبح کے وقت بسم اللہ کہنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت (بیچنے کے لیے) لاتے ہیں، اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بسم اللہ کہہ کر کھاؤ اور وہ لوگ (ابھی) نو مسلم تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3174]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
شبہ کی وجہ یہ تھی کہ یہ نو مسلم افراد شاید یہ مسئلہ نہ جانتے ہوں کہ اللہ کے نام سے ذبح کرنا چاہیے۔
تو بتایا گیا کہ شبہ نہ کرو بلکہ بسم اللہ پڑھ کر کھالو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3174   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2829  
´جس گوشت کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ وہ «بسم اللہ» پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا بغیر «بسم اللہ» کے، اس کے کھانے کا کیا حکم ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہیں جو جاہلیت سے نکل کر ابھی نئے نئے ایمان لائے ہیں، وہ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں تو کیا ہم اس میں سے کھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بسم الله» کہہ کر کھاؤ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2829]
فوائد ومسائل:
مسلمان کے احوال بنیادی طور پر خیر اور صلاح پر ہی محمول ہوتے ہیں۔
الا یہ کہ کوئی واضح اور صریح بات سامنے آئے۔
اس لئے محض وہم وگمان کی بنا پر کسی شبے میں نہیں پڑھنا چاہیے۔
جانور ذبح کرتے ہوئے جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دینا ناجائز ہے۔
لیکن بھول معاف ہے۔
اور ایسی صورت میں ذبیحہ کے حلال ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2829   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2057  
2057. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کئی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا تھا یا نہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم خود اس پر بسم اللہ پڑھ لو اور اسے کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2057]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مسلمان سے نیک گمان رکھنا چاہئے اور جب تک دلیل سے معلوم نہ ہو کہ مسلمان نے ذبح کے وقت بسم اللہ نہیں کہی تھی یا اللہ کے سوا اور کسی کا نام لیا تھا تو اس کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال ہی سمجھا جائے گا۔
حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ مشرکوں کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال سمجھ لو، اور فقہاءنے اس کی تصریح کی ہے کہ اگر مشرک قصاب بھی کہے کہ اس جانور کو مسلمان نے کاٹا ہے تو اس کا قول مقبول نہ ہوگا۔
اس لیے مشرک کافر قصائی سے گوشت لینے میں بہت احتیاط اور پرہیز چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2057   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2057  
2057. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!کئی لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کیا تھا یا نہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم خود اس پر بسم اللہ پڑھ لو اور اسے کھالو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2057]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی غرض وسوسہ زدہ لوگوں کے خوف کو بیان کرنا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں جیسا کہ کوئی کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور شخص نے کیا ہوگا، اس سے وہ جانور بھاگ گیا اور اس کے ہتھے چڑھ گیا۔
پیش کردہ حدیث میں بھی اس قسم کا وسوسہ بیان ہوا ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔
(2)
مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے کہ انھوں نے ذبح کرتے وقت اللہ کانام ضرور لیا ہوگا۔
یہ شبہ کرنا کہ شاید اس نے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا ہو محض ایک وسوسہ اور شبہ ہے۔
اس کا خیال نہیں کرنا چاہیے بلکہ خود بسم اللہ پڑھ کر اسے استعمال کرلینا چاہیے۔
ان ہر دو روایات سے معلوم ہوا کہ وسوسے ان شبہات میں داخل نہیں ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
وسوسے جب تک دل میں جاگزیں نہ ہوں اور قرار نہ پکڑیں ان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنے کی دلیل ہے، نیز یہ کہ مسلمانوں کے امور کمال پر محمول ہیں۔
خصوصاً اس زمانے میں جب ہر مسلمان دین اسلام سے بخوبی واقف ہو۔
(فتح الباري: 375/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2057