صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
6. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الجمعہ میں) یہ فرمانا کہ ”جب وہ مال تجارت آتا ہوا یا کوئی اور تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 2058
حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَقْبَلَتْ مِنْ الشَّأْمِ عِيرٌ تَحْمِلُ طَعَامًا، فَالْتَفَتُوا إِلَيْهَا حَتَّى مَا بَقِيَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فَنَزَلَتْ:وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا سورة الجمعة آية 11.
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ (یعنی خطبہ سن رہے تھے) کہ ملک شام سے کچھ اونٹ کھانے کا سامان تجارت لے کر آئے۔ (سب نمازی) لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها‏» جب وہ مال تجارت یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3311  
´سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما» اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3311]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ(ﷺ) کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں،
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعة: 11)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3311   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2058  
2058. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2058]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔
لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔
شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود ؓ آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے۔
صحابہ کرام ؓ کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔
ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔
شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔
امام بخاری ؒ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔
یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یادالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔
اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔
جن کا محض بقائے حیات کے لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2058   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2058  
2058. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2058]
حدیث حاشیہ:
(1)
دراصل مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔
مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی۔
اس بنا پر غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔
انھی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ شام سے غلے اور اناج کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ آپہنچا۔
انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کردی۔
خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک جائے گا، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
اس آیت کریمہ میں میٹھی زبان سے عتاب کیا گیا کہ قافلے والے تمھارے رازق تو نہ تھے، رزق کے اسباب مہیا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا تمھیں آئندہ ایسی باتوں سے بچنا چاہیے۔
چونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے حدیث میں خطبے کی سماعت کرنے والوں کو نماز پڑھنے والے کہا گیا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ تجارت اگرچہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کا تعلق کسب حلال سے ہے لیکن کبھی یہ مذموم بھی ہوجاتی ہے جب اس سے اہم اور ضروری چیز پر اسے مقدم کیا جائے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آخر نماز تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے مگر وہ اس اہم اور ضروری امر کو چھوڑ کر تجارت کی طرف چلے گئے، اس لیے یہ تجارت ان کے لیے عتاب کا سبب بن گئی۔
پوری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے:
اور جب انھوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔
کہہ دیجیے!جو اللہ کے پاس ہے وہ اس تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
' (الجمعة: 11: 62)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2058