صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
8. بَابُ التِّجَارَةِ فِي الْبَرِّ:
باب: خشکی میں تجارت کرنے کا بیان۔
وَقَوْلِهِ: رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ سورة النور آية 37، وَقَالَ قَتَادَةُ: كَانَ الْقَوْمُ يَتَبَايَعُونَ وَيَتَّجِرُونَ، وَلَكِنَّهُمْ إِذَا نَابَهُمْ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ، لَمْ تُلْهِهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ حَتَّى يُؤَدُّوهُ إِلَى اللَّهِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله‏» (سورۃ النور میں) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ قتادہ نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو خرید و فروخت اور تجارت کرتے تھے لیکن اگر اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق سامنے آ جاتا تو ان کی تجارت اور خرید و فروخت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں رکھ سکتی تھی، جب تک وہ اللہ کے حق کو ادا نہ کر لیں۔ (ان کو چین نہیں آتا تھا)۔
حدیث نمبر: 2060
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، قَالَ: كُنْتُ أَتَّجِرُ فِي الصَّرْفِ، فَسَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَعَامِرُ بْنُ مُصْعَبٍ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا الْمِنْهَالِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَا: كُنَّا تَاجِرَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّرْفِ؟ فَقَالَ: إِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ، وَإِنْ كَانَ نَسَاءً فَلَا يَصْلُحُ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے ابوالمنہال نے بیان کیا کہ میں سونے چاندی کی تجارت کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اور مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا کہ ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار اور عامر بن مصعب نے خبر دی، ان دونوں حضرات نے ابوالمنہال سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے سونے چاندی کی تجارت کے متعلق پوچھا، تو ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تاجر تھے، اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سونے چاندی کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ دیا تھا کہ (لین دین) ہاتھوں ہاتھ ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2060  
2060. حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں کرنسی کا کاروبار کرتاتھا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت زید بن ارقم ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسری سندکے مطابق حضرت ابو منہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے کرنسی کے کاروبار کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تجارت کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیع صرف یعنی کرنسی کے کاروبار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر نقد بنقد ہوتو کوئی حرج نہیں، اگر ادھار ہوتو جائز نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2060]
حدیث حاشیہ:
مثلاً ایک شخص نقد روپیہ دے اور دوسرا کہے میں اس کے بدل کا روپیہ ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو یہ درست نہیں ہے۔
بیع صرف میں سب کے نزدیک تقابض یعنی دونوں بدلوں کا نقدانقد دیا جانا شرط ہے اور میعاد کے ساتھ درست نہیں ہوتی اب اس میں اختلاف ہے کہ اگر جنس ایک ہی ہو مثلاً روپے کو روپے سے یا اشرفیوں کو اشرفیوں سے تو کمی یا زیادتی درست ہے یا نہیں؟ حنفیہ کے نزدیک کمی اور زیادتی جب جنس ایک ہو تو درست نہیں اور ان کے مذہب پر کلدار اور حالی سکہ کا بدلنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ کچھ پیسے شریک کردے، تاکہ کمی اور زیادتی سب کے نزدیک جائز ہو جائے۔
(وحیدی)
اس حدیث کے عموم سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ خشکی میں تجارت کرنا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2060   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2060  
2060. حضرت ابو منہال سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں کرنسی کا کاروبار کرتاتھا۔ میں نے اس کے متعلق حضرت زید بن ارقم ؓ سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ ایک دوسری سندکے مطابق حضرت ابو منہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے کرنسی کے کاروبار کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تجارت کرتے تھے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیع صرف یعنی کرنسی کے کاروبار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر نقد بنقد ہوتو کوئی حرج نہیں، اگر ادھار ہوتو جائز نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2060]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے آیت کریمہ اور حدیث کے عموم سے خشکی وغیرہ میں تجارت کرنے کو ثابت کیا ہے،چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں پیشۂ تجارت سے منسلک تھے۔
ان الفاظ سے امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔
(2)
سونے چاندی کے سکوں کا باہمی تبادلہ صرف کہلاتا ہے۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
٭چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا۔
اس کے جائز ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:
٭ دونوں کا وزن برابر ہو۔
٭دست بدست ہوں۔
اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہویا نقد کی صورت میں وزن میں کمی بیشی کی گئی تو معاملہ حرام ہوجائے گا۔
٭ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے عوض خریدنا۔
اس صورت میں وزن کا برابر ہونا تو ضروری نہیں،تاہم اس کا نقد بنقد ہونا ضروری ہے۔
اگر کمی بیشی کے ساتھ معاملہ ادھار ہوا تو جائز نہیں ہوگا۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے،البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے عموم سے خشکی میں تجارت کے جائز ہونے کو ثابت کیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2060