سنن ابن ماجه
كتاب الحدود -- کتاب: حدود کے احکام و مسائل
26. بَابُ : الْخَائِنِ وَالْمُنْتَهِبِ وَالْمُخْتَلِسِ
باب: خائن، لٹیرے اور چھین کر بھاگنے والوں کا حکم۔
حدیث نمبر: 2592
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَاصِمِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَيْسَ عَلَى الْمُخْتَلِسِ قَطْعٌ".
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھین کر بھاگنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9715، ومصباح الزجاجة: 917) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جیب کترے کا ہاتھ کاٹا جائے گا، کیونکہ چوری کی تعریف اس پر صادق آتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2592  
´خائن، لٹیرے اور چھین کر بھاگنے والوں کا حکم۔`
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھین کر بھاگنے والے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2592]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خیانت کا مطلب ہے مالک کی بظاہر خیرخواہی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا مال خفیہ طور پر لے لینا۔
چھیننے کا مطلب ہے کسی سے کوئی چیز زبردستی لینا۔
اچکنے کا مطلب ہے کسی کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر اچانک چھین لینا۔

(2)
ہاتھ کاٹنے کی سزا چوری کے جرم میں دی جاتی ہے۔
مذکورہ جرائم چونکہ چوری میں شامل نہیں اس لیے ان کی سزا میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔

(3)
ہاتھ نہ کاٹنے کا مطلب مجرم کو معاف کرنا نہیں بلکہ اسے کوئی دوسری مناسب سزا دینا مراد ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2592