صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
9. بَابُ الْخُرُوجِ فِي التِّجَارَةِ:
باب: تجارت کے لیے گھر سے باہر نکلنا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ سورة الجمعة آية 10.
‏‏‏‏ اور (سورۃ الجمعہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله» کہ جب نماز ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو
حدیث نمبر: 2062
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ:" أَنَّ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، وَكَأَنَّهُ كَانَ مَشْغُولًا، فَرَجَعَ أَبُو مُوسَى فَفَرَغَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ائْذَنُوا لَهُ؟ قِيلَ: قَدْ رَجَعَ فَدَعَاهُ، فَقَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِكَ، فَقَالَ: تَأْتِينِي عَلَى ذَلِكَ بِالْبَيِّنَةِ، فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسِ الْأَنْصَارِ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: لَا يَشْهَدُ لَكَ عَلَى هَذَا إِلَّا أَصْغَرُنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَذَهَبَ بِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَخَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ يَعْنِي الْخُرُوجَ إِلَى تِجَارَةٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں عبید بن عمیر نے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہی لیکن اجازت نہیں ملی۔ غالباً آپ اس وقت کام میں مشغول تھے۔ اس لیے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں نے عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) کی آواز نہیں سنی تھی۔ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔ کہا گیا وہ لوٹ کر چلے گئے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا لیا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں اسی کا حکم (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) تھا (کہ تین مرتبہ اجازت چاہنے پر اگر اندر جانے کی اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جانا چاہئے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا (کہ کیا کسی نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے) ان لوگوں نے کہا کہ اس کی گواہی تو تمہارے ساتھ وہ دے گا جو ہم سب میں بہت ہی کم عمر ہے۔ وہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا۔ افسوس کہ مجھے بازاروں کی خرید و فروخت نے مشغول رکھا۔ آپ کی مراد تجارت سے تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2062  
2062. حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ سے ملاقات کی اجازت طلب کی لیکن انھیں اجازت نہ ملی۔۔۔ غالباً حضرت عمر ؓ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے۔۔۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ واپس آگئے۔ حضرت عمر ؓ جب کام سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ میں نے عبداللہ بن قیس ؓ (ابو موسیٰ اشعری ؓ) کی آوازسنی تھی؟ انھیں اجازت دے دو۔ عرض کیا گیا: وہ تو واپس چلے گئے ہیں۔ آپ نے انھیں بلایا(اور پوچھا:) کیوں واپس چلے گئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اس پر کوئی گواہ پیش کرو۔ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اس بات کی گواہی تو حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی دے دیں گے جو ہم سب میں کم عمر ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2062]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت عمر ؓ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے۔
اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلاً کوئی کسی کے گھر ملاقات کو جائے تو دورازے پر جاکر تین دفعہ سلام کے ساتھ اجازت طلب کرے، اگر جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔
کسی حدیث کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا۔
نیز یہ کہ صحیح بات میں کم سن بچوں کی گواہی بھی مانی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2062   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2062  
2062. حضرت عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دفعہ حضرت عمر ؓ سے ملاقات کی اجازت طلب کی لیکن انھیں اجازت نہ ملی۔۔۔ غالباً حضرت عمر ؓ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے۔۔۔ حضرت موسیٰ اشعری ؓ واپس آگئے۔ حضرت عمر ؓ جب کام سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے کہ میں نے عبداللہ بن قیس ؓ (ابو موسیٰ اشعری ؓ) کی آوازسنی تھی؟ انھیں اجازت دے دو۔ عرض کیا گیا: وہ تو واپس چلے گئے ہیں۔ آپ نے انھیں بلایا(اور پوچھا:) کیوں واپس چلے گئے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اس پر کوئی گواہ پیش کرو۔ یہ سن کر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ اس بات کی گواہی تو حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی دے دیں گے جو ہم سب میں کم عمر ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2062]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے اور اس غرض سے ان کا باہر آنا جان بھی ثابت ہے۔
حدیث پیش کرنے کا یہی مقصد ہے۔
علاوہ ازیں حدیث مذکور سے دیگر مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں، مثلاً:
اگر کوئی کسی کے گھر ملاقات کےلیے جائے تو دروازے پر جاکر تین دفعہ سلام کہے اور اجازت طلب کرے۔
اگر جواب نہ ملے تو واپس آجائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت لے،اگر اجازت نہ ملے تو لوٹ آئے۔
(صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6245) (2)
حدیث نبوی کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا،نیز کم سن بچوں کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ہوسکتی ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2062