صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
20. بَابُ بَيْعِ الْخِلْطِ مِنَ التَّمْرِ:
باب: مختلف قسم کی کھجور ملا کر بیچنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2080
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ وَهُوَ الْخِلْطُ مِنَ التَّمْرِ، وَكُنَّا نَبِيعُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، وَلَا دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) مختلف قسم کی کھجوریں ایک ساتھ ملا کرتی تھیں اور ہم دو صاع کھجور ایک صاع کے بدلے میں بیچ دیا کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صاع ایک صاع کے بدلہ میں نہ بیچی جائے اور نہ دو درہم ایک درہم کے بدلے بیچے جائیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2256  
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2256]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھجور کا کھجور کےساتھ تبادلہ وزن کی کمی بیشی کےساتھ جائز نہیں۔
اسی طرح اشیاء اگر ایک جنس سے ہوں تو ان کا باہمی تبادلہ وزن کی کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں۔

(2)
دور نبوی میں مختلف قسم کے درہم و دینار رائج تھے لیکن ہر درہم دوسرے درہم کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اسی طرح ایک قسم کا دینار دوسری قسم کے دینار سے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان کے وزن کے معمولی فرق کو نظر انداز کر دیا گیا۔

(3)
روپے کے پرانے اور نئے نوٹوں کا تبادلہ یا بڑے نوٹ کا چھوٹے نوٹوں سے تبادلہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔
سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے میں پرانے نوٹوں کی صورت میں ایک سو دس روپے دینا‘ یا ایک سوروپے کے نوٹ کے بدلے میں روپے روپے والے نوٹ یا سکے کم وصول کرنا جائز نہیں کیونکہ بازار میں خرید وفروخت کے لیے نئے اور پرانے نوٹ یا سکے کی قدر میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2256   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2080  
2080. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ ہمیں خوراک کے طور پر ہرقسم کی ملی جلی کھجوریں ملاکرتی تھیں۔ ہم ان کے دو صاع عمدہ کھجوروں کے ایک صاع کے عوض بیچ ڈالتے تھے۔ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو صاع کھجور کا ایک صاع کھجور کے عوض فروخت کرنا درست نہیں اور نہ ہی دو درہم ایک درہم کے عوض فروخت کرنا جائزہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2080]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیوں کہ ان میں جو کچھ بھی عیب ہے وہ ظاہر ہے اور عمدگی ہے وہ بھی ظاہر ہے کوئی دھوکہ بازی نہیں ہے لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں بیچی جاسکتی ہیں۔
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت فرمائی وہ حدیث سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2080   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2080  
2080. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ ہمیں خوراک کے طور پر ہرقسم کی ملی جلی کھجوریں ملاکرتی تھیں۔ ہم ان کے دو صاع عمدہ کھجوروں کے ایک صاع کے عوض بیچ ڈالتے تھے۔ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو صاع کھجور کا ایک صاع کھجور کے عوض فروخت کرنا درست نہیں اور نہ ہی دو درہم ایک درہم کے عوض فروخت کرنا جائزہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2080]
حدیث حاشیہ:
یہ حکم تمام اشیائے خوردنی کا ہے۔
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو کمی بیشی اور ادھار جائز نہیں، البتہ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیونکہ ان میں جو کچھ عیب ہے وہ ظاہر ہے اور جو عمدگی ہے وہ بھی واضح ہے۔
کوئی دھوکا بازی یا فریب کاری نہیں ہے،لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں فروخت کی جاسکتی ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہےکیونکہ کھجوریں روی ہوں یا اعلیٰ،یہ سب ایک ہی جنس ہیں،باہمی تبادلے کے وقت ایک ہی جنس میں نفع لینا جائز نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اس سے مراد مختلف قسم کی کھجوروں کا ملاجلا ڈھیر ہے لیکن اگر اس طرح کی کھجوریں پیک شدہ ہوں،عمدہ کھجوریں نظر آئیں اور روی کھجوریں نظر وں سے اوجھل رہیں تو اس صورت میں ان کی فرخت جائز نہیں ہوگی۔
(فتح الباری: 4/394)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2080