صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
23. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ ”اے ایمان والو! سود در سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاس کو“۔
حدیث نمبر: 2083
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ، أَمِنْ حَلَالٍ أَمْ مِنْ حَرَامٍ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے لیا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2083  
2083. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروانہیں کرے گا کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا۔ حلال ذرائع سے یا حرام طریقوں سے کمایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2083]
حدیث حاشیہ:
بلکہ ہر طرح سے پیسہ جوڑنے کی نیت ہوگی، کہیں سے بھی مل جائے اور کسی طرح سے خواہ شرعا وہ جائز ہو یا ناجائز۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جو سو دنہ کھائے گا اس پر بھی سود کا غبار پڑ جائے گا۔
یعنی وہ سودی معاملات میں وکیل یا حاکم یا گواہ کی حیثیت سے شریک ہو کر رہے گا۔
آج کے نظامہائے باطل کے نفاذ سے یہ بلائیں جس قدر عام ہو رہی ہیں مزید تفصیل کی محتاج نہیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2083   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2083  
2083. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروانہیں کرے گا کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا۔ حلال ذرائع سے یا حرام طریقوں سے کمایا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2083]
حدیث حاشیہ:
(1)
زمانۂ جاہلیت کا رواج تھا کہ جب قرض کی مدت ختم ہوجاتی تو اگر مقروض اپنا قرض ادا کردیتا تو بہتر بصورت دیگر مدت بڑھادی جاتی اور اس کا سود بھی بڑھا دیا جاتا۔
ہر سال اس طرح کرتے حتی کہ اصل زر سے سود کی رقم کئی گنا بڑھ جاتی۔
اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
سود در سود کی وضاحت سے اس کی قباحت اور شناعت کو بیان کرنا ہے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے کہ ایک درہم قرض دے کر وہ کئی درہم وصول کرتے تھے۔
(2)
حدیث کی عنوان سے اس طرح مناسبت ہے کہ سود خور کئی گنا سود کھا کر پروا نہیں کرتا کہ حلال کھا رہا ہے یا حرام سے پیٹ بھررہا ہے۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد امت کو خبردار کرنا ہےکہ ایک وقت آنے والا ہے جب سود کی وبا عام ہوجائے گی اور اس سے محفوظ رہنا بہت ہی دشوار ہوگا۔
اللهم احفظنامنه.آمين.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2083