سنن ابن ماجه
كتاب المناسك -- کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
4. بَابُ : الْحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ
باب: سواری پر حج کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2891
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ:" أَيُّ وَادٍ هَذَا؟"، قَالُوا: وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام فَذَكَرَ مِنْ طُولِ شَعَرِهِ شَيْئًا لَا يَحْفَظُهُ دَاوُدُ وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ"؟، قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى أَوْ لَفْتٍ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَخِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: «هرشى أو لفت» کی وادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 74 (166)، (تحفة الأشراف: 5424)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 30 (1555) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «هرشى أو لفت» دونوں ٹیلوں کے نام ہیں۔
۲؎: احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دکھلا دیا، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2891  
´سواری پر حج کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2891]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام بھی کعبہ شریف کا حج کرتے تھے اگرچہ ان کا قبلہ بیت المقدس تھا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کی وحی کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ گزشتہ واقعات آپ کو اس انداز سے دکھا دیے جاتےتھے گویا کہ وہ ابھی واقع ہو رہے ہیں اس طرح ماضی کے واقعات یا جنت اور جہنم کے حالات سے نبیﷺ اس طرح واقف ہو جاتے تھے جس طرح کوئی چشم دید واقعات کو جانتا اور یاد رکھتا ہے۔

(3)
لبیک بلند آواز سے پکارنا مستحب ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 2922 تا 2924)

(4)
مرد کو احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس پہننا منع ہے۔ (سنن ابن ماجة حدیث: 2929)
ممکن ہے حضرت یونس علیہ السلام کی شریعت میں اس کی اجازت ہو اس لیے انھوں نےاونی جبہ پہنا ہوا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2891