صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
37. بَابُ بَيْعِ السِّلاَحِ فِي الْفِتْنَةِ وَغَيْرِهَا:
باب: جب مسلمانوں میں آپس میں فساد نہ ہو یا ہو رہا تو ہتھیار بیچنا کیسا ہے؟
وَكَرِهَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ بَيْعَهُ فِي الْفِتْنَةِ.
‏‏‏‏ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے فتنہ کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا مکروہ رکھا۔
حدیث نمبر: 2100
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَأَعْطَاهُ يَعْنِي دِرْعًا، فَبِعْتُ الدِّرْعَ، فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ، فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے کہا، ان سے یحییٰ بن سعید نے کہا، ان سے ابن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابومحمد نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ ہم غزوہ حنین کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک زرہ تحفہ دی اور میں نے اسے بیچ دیا۔ پھر میں نے اس کی قیمت سے قبیلہ بنی سلمہ میں ایک باغ خرید لیا۔ یہ پہلی جائیداد تھی جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2717   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2100  
2100. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ حنین کے سال روانہ ہوئے۔ آپ نے مجھے ایک زرہ عنایت فرمائی تو میں نے اسے بیچ کر اس کے عوض بنو سلمہ میں ایک باغ خریدلیا۔ یہ سب سے پہلی جائیداد تھی۔ جو میں نے عہد اسلام میں حاصل کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2100]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ترجمہ باب کا ایک جز یعنی جب فساد نہ ہو اس وقت جنگی سامان بیچنا درست ہے، نکلتا ہے کیوں کہ زرہ بھی ہتھیار یعنی لڑائی کے سامان میں داخل ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ فساد کے زمانہ میں ہتھیار بیچنا، تو یہ بعض نے مکروہ رکھا ہے جب ان لوگوں کے ہاتھ بیچے جو فتنہ میں ناحق پر ہوں۔
اس لیے کہ یہ اعانت ہے گناہ اور معصیت پر اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا و تعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان (المائدۃ: 2)
اس جماعت کے ہاتھ جو حق پر ہو بیچنا مکروہ نہیں ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2100   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2100  
2100. حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوہ حنین کے سال روانہ ہوئے۔ آپ نے مجھے ایک زرہ عنایت فرمائی تو میں نے اسے بیچ کر اس کے عوض بنو سلمہ میں ایک باغ خریدلیا۔ یہ سب سے پہلی جائیداد تھی۔ جو میں نے عہد اسلام میں حاصل کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2100]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے غزوۂ حنین کے موقع پر ایک کافر کو قتل کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مقتول کا تمام سامان دے دیا،جس میں وہ زرہ تھی جسے انھوں نے فروخت کرکے باغ خریدا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المغازی میں اسے مفصل طور پر ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاری،المغازی،حدیث: 4823) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ فتنہ وفساد کے زمانے میں ہتھیار فروخت کرنا ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خریدار کی اعانت ہوتی ہے۔
یہ اس صورت میں ہے جب خریدار کا حال مشتبہ ہو کہ وہ حق پر ہے یا بغاوت کرنے والا ہے۔
اگر اس بات کا یقین ہوجائے کہ خریدار حق پر ہے تو اس کے پاس ہتھیار فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
دراصل امام نوی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ اپنا مال کسی بھی شخص کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس کی تحدید کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جب زرہ فروخت کی تو اس وقت بھی ہنگامی حالات تھے لیکن آپ نے قطعی طور پر ایسے شخص کو زرہ فروخت نہیں کی جس سے مسلمانوں کو خطرہ تھا۔
والله اعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2100