سنن ابن ماجه
كتاب الذبائح -- کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل
14. بَابُ : لُحُومِ الْبِغَالِ
باب: خچر کے گوشت کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3198
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُحُومِ الْخَيْلِ، وَالْبِغَالِ، وَالْحَمِيرِ".
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ ے، خچر اور گدھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة 26 (3790)، سنن النسائی/الذبائح 30 (4336)، (تحفة الأشراف: 3505)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/89، 90) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (بقیہ اور صالح بن یحییٰ اور یحییٰ بن المقدام سب ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: سنن ترمذی میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے اور خچر کے گوشت سے منع فرمایا، معلوم ہوا کہ خچر کا گوشت حرام ہے (ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی: ج۲ص ۳۴۶)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3790  
´گھوڑے کے گوشت کے کھانے کا بیان۔`
خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچر اور گدھوں کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ حیوۃ نے ہر دانت سے پھاڑ کر کھانے والے درندے کا اضافہ کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مالک کا قول ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: گھوڑے کے گوشت میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منسوخ ہے، خود صحابہ کی ایک جماعت نے گھوڑے کا گوشت کھایا جس میں عبداللہ بن زبیر، فضالہ بن عبید، انس بن مالک، اسماء بنت ابوبکر، سوید بن غفلہ، علقمہ شامل ہیں اور قریش عہد نبوی میں گھوڑے ذبح کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3790]
فوائد ومسائل:
توضیح: گھوڑے کا گوشت حلال اور طیب ہے۔
ہمارے ہاں اس کا رواج نہ ہونا الگ بات ہے۔
دیکھیے۔
(صحیح البخاري، الذبائع والصید، باب لحوم الخیل، حدیث:5519۔
و باب النحر  و ذبح حدیث: 5511۔
5510۔
و صحیح مسلم، الصید و الذبائح، باب إباحة أکل لحم الخیل، حدیث: 1942۔
1941)
 اور یہ آخری روایت (خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ضعیف ہے۔
اسے امام احمد بخاری۔
موسیٰ بن ہارون دراقطنی خطابی ابن عبد البر اور عبد الحق وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
علامہ البانی نے بھی اسے ضعیف سنن ابی دائود میں درج کیا ہے۔
بعض اہل علم سورہ نحل کی آیت مبارکہ (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (قرآن ۚ) (النحل۔
8)
اللہ نے گھوڑوں خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا۔
کہ تم ان پرسواری کرو۔
اور یہ تمہارے لئے باعث زینت بھی ہیں۔
سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ یہ جانور کھانے کےلئے نہیں ہیں۔
(لہذا حرام ہیں۔
)
ان حضرات کا استدلال صحیح نہیں۔
کیونکہ آیت کریمہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ یہ جانورمحض سواری اور زینت ہی کےلئے ہیں۔
دیگر فوائد حاصل کرنا ناجائز ہیں۔
چونکہ مذکورہ فوائد اہم تر تھے، اس لئے قرآن کریم نے ان کا ذکرفرمایا ہے۔
جیسے کہ سورہ مائدہ میں ہے (قرآن) (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ) (المائدة:3) تم پرمردار خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔
اس میں خنزیر کے صرف گوشت کا ذکر ہوا ہے۔
کیونکہ اہم شے یہی ہے۔
حالانکہ دیگر اشیاء ہڈی اور دوسرے اجزاء کا بھی یہی حکم ہے اور ان کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔
اس مذکورہ سیاق میں گھوڑے پر بوجھ لادنے کا ذکر بھی نہیں ہے۔
تو کیا گھوڑے پر بوجھ لادنا جائز سمجھ لیا جائے؟ یہ بات عقل ونقل کے سراسر خلاف ہوگی۔
اس طرح سے اس کے حرام ہونے کا استدلال بھی قطعا ً درست نہیں۔
شروع آیات میں ہے۔
(وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ) (النحل:5) اسی نے چوپائے پیدا کئے جن میں تمہارے لئے گرم لباس ہیں۔
اور بھی بہت سے منافع ہیں۔
اور کئی تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔
تو یہاں اہم فوائد کا ذکر کردیا گیا ہے۔
اور باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے۔
(معالم السنن وعون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3790