سنن ابن ماجه
كتاب الصيد -- کتاب: شکار کے احکام و مسائل
3. بَابُ : صَيْدِ الْكَلْبِ
باب: کتوں کے کیے ہوئے شکار کا حکم۔
حدیث نمبر: 3207
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي، الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكُمْ فِي أَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلَا تَأْكُلُوا فِي آنِيَتِهِمْ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا، فَاغْسِلُوهَا وَكُلُوا فِيهَا، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ أَمْرِ الصَّيْدِ فَمَا أَصَبْتَ بِقَوْسِكَ، فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ملک میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہے، میں اپنی کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، اور ان کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہی یہ بات جو تم نے ذکر کی کہ ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اِلا یہ کہ کوئی چارہ نہ ہو، اگر اس کے علاوہ تم کوئی چارہ نہ پاؤ تو پھر انہیں دھو ڈالو، اور ان میں کھاؤ، رہا شکار کا معاملہ جو تم نے ذکر کیا تو جو شکار تم اپنے کمان سے کرو اس پر اللہ کا نام لے کر شکار کرو اور کھاؤ، اور جو شکار سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور کھاؤ، اور جو شکار ایسے کتے کے ذریعہ کیا گیا ہو جو سدھایا ہوا نہ ہو تو اگر تم اسے ذبح کر سکو تو کھاؤ (ورنہ نہیں) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 4 (5478)، 10 (5488)، 14 (5496)، صحیح مسلم/الصید 1 (1930)، سنن ابی داود/الصید 2 (2855)، سنن الترمذی/والسیر 11 (1560)، سنن النسائی/الصید 4 (4271)، (تحفة الأشرف: 11875)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/193، 194، 195)، سنن الدارمی/السیر 56 (2541) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اہل حدیث کے نزدیک جو جانور ہتھیار سے شکار کیا جائے (جیسے تیر تلوار، برچھا، بھالا، بندوق وغیرہ سے) یا ان جانوروں کے ذریعہ سے جو زخمی کرتے ہیں (جیسے کتا،چیتا، بازہجری، عقاب وغیرہ) تو حلال ہے، اگرچہ شکار کا جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جائے، بشرطیکہ مسلمان شکار کرے، اور جانور یا ہتھیار کو شکار پر چلاتے وقت بسم اللہ کہے، یہی جمہور علماء اور فقہا کی رائے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 19  
´اہل کتاب، یعنی یہود و نصارٰی کے زیر استعمال برتنوں میں کھانا پینا`
«. . . قلت: يا رسول الله! إنا بارض قوم اهل كتاب،‏‏‏‏ افناكل في آنيتهم؟ قال: ‏‏‏‏لا تاكلوا فيها إلا ان لا تجدوا غيرها،‏‏‏‏ فاغسلوها وكلوا فيها . . .»
. . . میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں کیا ہم ان کے استعمال کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان برتنوں میں نہ کھاؤ، البتہ اگر ان کے ماسوا اور برتن میسر نہ ہو سکیں تو پھر ان کو دھو کر ان میں کھا سکتے ہو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 19]
لغوی تشریح:
«إِنَّا» ہمزہ کے کسرہ اور نون کی تشدید کے ساتھ، حرف تاکید ہے اور میں ضمیر متکلم بھی ہے۔
«أَهْلِ كِتَابٍ» کتاب والے، یہ الفاظ یہود و نصاریٰ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں سوال میں مذکور نصاریٰ ہیں۔ یہ الفاظ یہاں «قَوْمٍ» کی صفت ہیں۔
«أَفَنَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ» ایک تردد اور تذبذب پیدا ہوتا تھا کہ یہود و نصارٰی بعض اوقات اپنے برتنوں میں سور کا گوشت پکاتے اور ان میں شراب پیتے ہیں جیسا کہ ابوداود اور مسند احمد کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہم اہل کتاب کے پاس رہتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ہانڈیوں میں خنزیر کا گوشت پکا رہے ہوتے ہیں اور اپنے برتنوں میں شراب نوشی کر رہے ہوتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پھر ان کے برتنوں میں مت کھاؤ پیو۔ [سنن أبى داود، الأطعمة، باب فى استعمال آنية أهل الكتاب، حديث: 3839، ومسند أحمد: 193/4]
آپ کا جواب اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کے برتنوں میں خورد و نوش سے احتراز کرنا چاہئے تاوقتیکہ ان کے استعمال کرنے میں اضطراری حالت پیش آ جائے، پھر جب مجبوری لاحق ہو جائے اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہے تو اس صورت میں بھی ان کے پاک کرنے پر اعتماد نہ کیا جائے بلکہ خود ان کو پاک کیا جائے۔ اس حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں ہے بلکہ طبعی منافرت کے لیے ہے کہ ذوق سلیم ان برتنوں میں کھانے سے انکار کرتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے اور اس سے بھی نفرت کرتا ہے کہ جن برتنوں میں ایسی گندی اور نجس چیزیں پکائی جائیں ان میں پکی ہوئی چیز استعمال کی جائے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب، یعنی یہود و نصارٰی کے زیر استعمال برتنوں میں کھانا پینا اور ان برتنوں کے پانی سے وضو کرنا وغیرہ جائز نہیں۔ اس کی علت اور وجہ واضح ہے کہ یہ لوگ ان برتنوں میں ناپاک اور نجس چیزیں پکاتے ہیں۔
➋ جب اہل کتاب کے برتنوں میں کھانا پینا وغیرہ جائز نہیں تو ہنود، دہریوں اور ملحدوں کے برتنوں میں بھی کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہئے جن میں ناپاک و نجس چیزیں پکائی اور کھائی جاتی ہوں۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ: ER «الخُشَني» خا کے ضمہ اور شین کے فتحہ کے ساتھ ہے، خشین بن نمر (جس کا تعلق قبیلہ قضاعہ سے تھا) کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے خشنی کہلائے۔ بیعت رضوان کرنے والوں میں سے تھے۔ انہیں ان کی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ سب اسلام لے آئے۔ ملک شام میں قیام پذیر ہوئے اور وہیں 75 ہجری میں وفات پائی۔ نماز پڑھ رہے تھے کہ سجدے کی حالت میں روح پرواز کر گئی۔ ان کے اور ان کے والد کے نام میں شدید اختلاف ہے۔ کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 19   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود3839  
«ولحم خنزير»
خنزیر کا گوشت (نجس ہے)۔
➊ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ» [6-الأنعام:145]
➋ خنزیر کی نجاست پر فقہاء نے اجماع کیا ہے، خواہ اسے ذبح ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ [بداية المجتهد 73/1] ۱؎
------------------
۱؎ [بداية المجتهد 73/1، اللباب 55/1 المغني 55/1، الشرح الصغير 49/1، كشاف القناع 213/1، القوانين الفقهية ص/34، مراقي الفلاح ص / 25]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 151   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3207  
´کتوں کے کیے ہوئے شکار کا حکم۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ملک میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہے، میں اپنی کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، اور ان کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہی یہ بات جو تم نے ذکر کی کہ ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اِلا یہ کہ کوئی چارہ نہ ہو، اگر اس کے علاوہ تم کوئی چارہ نہ پاو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3207]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اہل کتاب (عیسائی)
اللہ کانام لیے بغیر ذبح کرتے ہیں جو مردار کے حکم میں ہے۔
اور جس برتن میں مردار گوشت پکایا جائے وہ بھی ناپاک ہے۔
ایسا برتن دھوئے بغیر استعمال کرنا منع ہے۔

(2)
یہودیوں اور عیسائیوں کے جو فرقے اللہ کا نام لیے بغیر ذبح نہیں کرتے ان کا ذبح شدہ حلال ہے۔

(3)
ہمارے ملک میں بعض عیسائی جب گوشت کھانا چاہتے ہیں تو مسلمان قصاب کے ہاں سے خریدتے ہیں یا کسی مسلمان سے ذبح کروالیتے ہیں۔
جس عیسائی کی یہ عادت معلوم ہو اس کے برتن پاک ہیں۔
ان میں پکا ہوا کھانا حلال ہے۔

(4)
کتا شکار پر چھوڑتے وقت تکبیر پڑھ کر چھوڑنا چاہیے۔
اس کے بعد اگر کتا اسے مالک کے پاس زندہ نہ لا سکے تب بھی وہ مذبوح کے حکم میں ہے۔
اگر مالک کے پاس جانور زندہ پہنچ جائے تواسے تکبیر پڑھ کر ذبح کر لیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3207   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2831  
´کفار و مشرکین کی ہانڈیوں (برتنوں) میں کھانے کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو میں نے سوال کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم مشرکین کی ہانڈیوں میں کھانا پکا سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں نہ پکاؤ میں نے کہا: اگر اس کی ضرورت پیش آ جائے اور ہمارے لیے کوئی چارہ کار ہی نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تم انہیں اچھی طرح دھو لو، پھر پکاؤ اور کھاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2831]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
غیر مسلموں کے برتن استعمال کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔

(2)
اس احتیاط کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے برتنوں میں شراب پیتے اور غیر مذبوح یعنی مردار جانوروں کا گوشت پکاتے اور کھاتے ہیں۔

(3)
اگر ایسے غیر مسلم کا برتن استعمال کرنا پڑے تو اسے اچھی طرح دھو لینا چاہیے یا مٹی سے مانجھ کر صاف کرلینا چاہیے پھر اس میں کھانا پینا درست ہوگا۔

(4)
اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا ملازم ہے اور مسلمانوں کے گھر سے مسلمانوں کا پکا ہوا کھانا کھاتا ہے تو اس کے برتن بھی دھو کر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

(5)
جس برتن میں شراب نہیں رکھی جاتی صرف پانی رکھا جاتا ہے اس سے پانی پیا جا سکتا ہے خواہ وہ برتن غیر مسلم کا ہو البتہ اسے دھولیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2831   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1560  
´کفار و مشرکین کے برتن استعمال کرنے کا بیان۔`
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں سوال کیا گیا ۱؎ تو آپ نے فرمایا: ان کو دھو کر صاف کر لو اور ان میں پکاؤ، اور آپ نے ہر درندے اور کچلی والے جانور کو کھانے سے منع فرمایا ۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1560]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہ ان کا استعمال کرنا اور ان میں پکانا کھانا درست ہے یا نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1560