صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
45. بَابُ إِذَا خَيَّرَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ بَعْدَ الْبَيْعِ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ:
باب: اگر بیع کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لینے کے لیے مختار بنایا تو بیع لازم ہو گئی۔
حدیث نمبر: 2112
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، وَكَانَا جَمِيعًا، أَوْ يُخَيِّرُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكَ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، وَإِنْ تَفَرَّقَا بَعْدَ أَنْ يَتَبَايَعَا، وَلَمْ يَتْرُكْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا الْبَيْعَ، فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب دو شخصوں نے خرید و فروخت کی تو جب تک وہ دونوں جدا نہ ہو جائیں، انہیں (بیع کو توڑ دینے کا) اختیار باقی رہتا ہے۔ یہ اس صورت میں کہ دونوں ایک ہی جگہ رہیں، لیکن اگر ایک نے دوسرے کو پسند کرنے کے لیے کہا اور اس شرط پر بیع ہوئی، اور دونوں نے بیع کا قطعی فیصلہ کر لیا، تو بیع اسی وقت منعقد ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر دونوں فریق بیع کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، اور بیع سے کسی فریق نے بھی انکار نہیں کیا، تو بھی بیع لازم ہو جاتی ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 488  
´بیع خیار کا بیان`
«. . . 241- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المتبايعان كل واحد منهما بالخيار على صاحبه ما لم يتفرقا، إلا بيع الخيار. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو جدا ہو جانے سے پہلے اپنے ساتھی پر حق اختیار رہتا ہے الا یہ کہ (جدا ہو جانے کے بعد بھی) حق اختیار والا سودا ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 488]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2111، ومسلم 1531/43، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس حدیث میں جدائی سے مراد جسمانی جدائی یعنی تفرق بالا ابدان ہے۔ نافع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جب ابن (عمر رضی اللہ عنہ) کو سودا پسند آ جاتا تو بیچنے والے سے (دورجاکر) جدا ہوجاتے تھے۔ [صحيح بخاري 2107، صحيح مسلم 1531، دارالسلام: 3856]
➋ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کے خلاف اہل مدینہ کا اجماع ہے لیکن ایسے نام نہاد اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں ہے جس سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ وغیر ہ باہر ہیں۔ نیز دیکھئے [التمهيد 9/14]
➌ اس صحیح حدیث کو رد کرتے ہوۓ محمود حسن دیوبندی (اسیر مالٹا) نے کہا:
«و خالف ابوحنيفته فيه الجمهور و كثيراً من الناس من المتقدمين و المتاخرين صنو ارسائل فى ترديد مذهبه فى هذه المسئلة ورجح مولانا شاه ولي الله دهلوي قدس سره فى رسائل مذهب الشافعي من جهته الأحاديث والنصوص و كذلك قال شيخنا مدظله يترجح مذهبه وقال: الحق والانصاف أن الترجيح للشافعي فى هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب عليان تقليد امامنا ابي حنيفته والله اعلم» ۔
اور اس (مسئلے) میں ابوحنیفہ نے جمہور اور مقتدمین و متاخرین میں سے بہت سوں کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اس مسئلے میں ان کے مذہب کی تردید میں رسالے لکھے اور مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ نے رسالوں میں احادیث اور دلائل کی وجہ سے (امام) شافعی کے مذہب کو ترجیح دی اور اسی طرح ہمارے شیخ مدظلہ نے کہا: ان کا مذہب راجح ہے، اور کہا: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔ واللہ اعلم [تقريرترمذي ص36 مطبوعه ایچ ایم سعید کمپنی کراچی] غور کریں کہ تقلید نے ان لوگوں کو حق و انصاف اور دلائل سے کتنا دور کر دیا ہے۔!
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 241   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2181  
´بیچنے اور خریدنے والے جب تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہو جائیں دونوں کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی ایک مجلس میں خرید و فروخت کریں، تو دونوں میں سے ہر ایک کو بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں، یا ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو اختیار نہ دیدے، پھر اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دے دیا پھر بھی ان دونوں نے بیع پکی کر لی تو بیع واجب ہو گئی، اس طرح بیع ہو جانے کے بعد اگر وہ دونوں مجلس سے جدا ہو گئے تب بھی بیع لازم ہو گئی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2181]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سودا طے پا جانےکے بعد جب قیمت ادا کرکے چیز وصول کر لی جائے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے لیکن ممکن ہے خریدنے والا محسوس کرے کہ یہ سودا اس قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور وہ چیز واپس کرنا چاہیے یا بیچنے والا محسوس کرے کہ مجھے یہ چیز نہیں بیچنی چاہیے تھی اور وہ واپس لینا چاہیے تو اس صورت ميں سودا ختم کرکے مال اور رقم کا دوبارہ تبادلہ کر لینا چاہیے۔

(2)
  بیچے ہوئے مال کو واپس کر لینا بہت ثواب ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث2199)

(3)
  بیع واپس کرنے کا اختیار اس وقت تک رہتا ہے جب تک دونوں ایک مجلس میں موجود رہیں۔

(4)
  اگر ان کے درمیان کوئی مدت طے پاجائے تو واپس لینے دینے کا حق اس مدت تک ہوگا، مثلاً:
خریدنے والا کہے:
اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو میں تین دن تک واپس کردوں گا۔
یا بیچنے والا کہے:
اگر میں کل شام تک واپس نہ لوں تو بعد میں تم سے واپسی کا کوئی مطالبہ نہیں ہوگا۔
اس صورت میں مجلس سے الگ ہوجانے کے بعد بھی مذکورہ مدت تک اختیار باقى رہے گا۔

(5)
  اگر انہوں نے مجلس میں بیع واپس نہ کی اور نہ بعد میں واپس کرنے کے لیے کوئی مدت متعین ہوئی تو مجلس برخاست ہوتے ہی دونوں کا اختیار ختم ہو جائے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2181   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 692  
´بیع میں اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو آدمی آپس میں سودا کرنے لگیں تو جب تک وہ اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو اختیار ہے، یا ایک دوسرے کو اختیار دیدے، اگر ایک دوسرے کو اختیار دیدے، پھر اس پر سودا طے ہو جائے تو سودا پختہ ہو گیا اور اگر سودا طے کرنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ الگ ہو جائیں اور دونوں میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا ہو تو بیع پختہ ہو جائے گی۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 692»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب إذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع، حديث:2112، ومسلم، البيوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، حديث:1531.»
تشریح:
1. اس حدیث میں بیوپاری اور سوداگر کو خرید وفروخت کے باقی رکھنے یا توڑنے کا حق دیا گیا ہے۔
2.اختیار یا خیار کے بھی یہی معنی ہیں کہ خریدار اور فروخت کنندہ کو سودا باقی رکھنے یا توڑنے کا حق ہے۔
3.اس کی بہت سی انواع ہیں۔
ان میں سے دو کا بالخصوص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
ایک خیار مجلس جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔
دوسری خیار شرط۔
وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک یا دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کو باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا۔
اگر خریدار اسے واپس کرنا چاہے تو فروخت کنندہ کو بغیر لیت ولعل اور حیل وحجت کے واپس لینا ہو گا۔
اس کے علاوہ دو تین صورتیں مزید یہ ہیں: 1.خِیَارِ عَیْب: خریدنے والا کہے کہ اگر اس میں کوئی نقص وعیب ہوا تو میں اسے واپس کرنے کا حق رکھتا ہوں۔
2.خِیَارِ رُؤیَتْ: خریدار کہے کہ سودا تو طے ہوا مگر میں اسے دیکھ کر ہی فیصلہ کروں گا کہ اسے لینا ہے یا نہیں۔
دیکھنے پر اسے یہ سودا منظور نہ ہوا تو بیع منعقد نہ ہوگی۔
3. خِیَارِ تَعَیُّن: خریدار کہے کہ ان میں سے جو چیز یا جو جانور مجھے پسند ہو گا وہ لے لوں گا۔
بہر حال شریعت نے فریقین کے لیے بے شمار آسانیاں اور سہولتیں رکھی ہیں تاکہ کسی طرح جھگڑا اور تنازع نہ ہو۔
خریدنے اور فروخت کرنے میں دونوں کی باہمی رضا مندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 692   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1245  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی عقد کو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقد سے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔

2؎:
اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا،
یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1245   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3454  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کو بیع قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں ۱؎ مگر جب بیع خیار ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3454]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اسے اصطلاحا خیار مجلس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اوراس کا تعلق بیع کی جگہ سے علیحدہ علیحدہ ہوجانے سے ہے نہ کہ بیع کا موضوع بدلنےسے۔
البتہ اگر کم یا زیادہ کسی متعین مدت تک کےلیے اختیار کا فیصلہ کرلیا گیا ہوتو الگ با ت ہے۔
ایسی صورت میں متعینہ مدت ہی معتبر ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3454   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2112  
2112. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب دو آدمی آپس میں بیع کریں تو جب تک دونوں جدا نہ ہو اور دونوں اکٹھےرہیں، ان میں سے ہرایک کو بیع کے انعقاداور فسخ کا اختیار ہے۔ ہاں اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا اور اسی طریقے پر انھوں نے بیع کا معاملہ کیا تو بیع واجب ہوگی۔ اور اگر وہ بیع کرنے کے بعد جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع واجب ہو جائے گی۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2112]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بائع اور مشتری جب تک ایک جگہ ہیں انھیں بیع کے انعقاد اور فسخ کا اختیار رہتا ہے۔
ہاں،اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو اختیار دےدیا کہ بیع پکی کرنے کا تجھے اختیار ہے۔
جب اس نے بیع کو اختیار کرلیا تو بیع پختہ ہوجائے گی اگرچہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔
اور اگر وہ خاموش رہا اور ہاں یا نہیں میں جواب نہ دیا تو بھی اس کا اختیار ختم نہیں ہوگا،البتہ اختیار دینے والے کا اختیار ختم ہوجائے گا۔
دوسری صورت بیع کے پختہ ہونے کی یہ ہے کہ عقد بیع کے بعد دونوں الگ الگ ہوگئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع پختہ ہوجائے گی۔
اس صورت میں خیار عیب باقی رہے گا۔
(2)
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث خیار مجلس کے ثبوت کے لیے بین دلیل ہے اور اس کے علاوہ ہر تاویل کو باطل قرار دیتی ہے،نیز اس میں وضاحت ہے کہ جدائی سے مراد اقوال کی نہیں بلکہ ابدان کی جدائی ہے۔
ابدان کی علیحدگی ہی اختیار کو ختم کرتی ہے۔
(فتح الباری: 4/421)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. خيار المجلس (المعاملات)
2. خيار الشرط (المعاملات)
موضوعات 1. مجلسی بیع میں چیز کی واپسی کا اختیار (معاملات)
2. بیع میں شرط کا اختیار (معاملات)
Topics 1. Choice of returning in the meeting of business deal (Matters)
2. Choice of conditioning in Business deal (Matters)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2112 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
"جب دو آدمی آپس میں بیع کریں تو جب تک دونوں جدا نہ ہو اور دونوں اکٹھےرہیں، ان میں سے ہرایک کو بیع کے انعقاداور فسخ کا اختیار ہے۔
ہاں اگر ایک نے دوسرے کو اختیار دیا اور اسی طریقے پر انھوں نے بیع کا معاملہ کیا تو بیع واجب ہوگی۔
اور اگر وہ بیع کرنے کے بعد جدا ہو گئے اور ان میں سے کسی نے بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع واجب ہو جائے گی۔
" حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بائع اور مشتری جب تک ایک جگہ ہیں انھیں بیع کے انعقاد اور فسخ کا اختیار رہتا ہے۔
ہاں،اگر ان میں سے ایک نے دوسرے کو اختیار دےدیا کہ بیع پکی کرنے کا تجھے اختیار ہے۔
جب اس نے بیع کو اختیار کرلیا تو بیع پختہ ہوجائے گی اگرچہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں۔
اور اگر وہ خاموش رہا اور ہاں یا نہیں میں جواب نہ دیا تو بھی اس کا اختیار ختم نہیں ہوگا،البتہ اختیار دینے والے کا اختیار ختم ہوجائے گا۔
دوسری صورت بیع کے پختہ ہونے کی یہ ہے کہ عقد بیع کے بعد دونوں الگ الگ ہوگئے اور ان میں سے کسی نے بھی بیع کو فسخ نہ کیا تو بھی بیع پختہ ہوجائے گی۔
اس صورت میں خیار عیب باقی رہے گا۔
(2)
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث خیار مجلس کے ثبوت کے لیے بین دلیل ہے اور اس کے علاوہ ہر تاویل کو باطل قرار دیتی ہے،نیز اس میں وضاحت ہے کہ جدائی سے مراد اقوال کی نہیں بلکہ ابدان کی جدائی ہے۔
ابدان کی علیحدگی ہی اختیار کو ختم کرتی ہے۔
(فتح الباری: 4/421)
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب دو شخصوں نے خرید و فروخت کی تو جب تک وہ دونوں جدا نہ ہو جائیں، انہیں (بیع کو توڑ دینے کا)
اختیار باقی رہتا ہے۔
یہ اس صورت میں کہ دونوں ایک ہی جگہ رہیں، لیکن اگر ایک نے دوسرے کو پسند کرنے کے لیے کہا اور اس شرط پر بیع ہوئی، اور دونوں نے بیع کا قطعی فیصلہ کر لیا، تو بیع اسی وقت منعقد ہو جائے گی۔
اسی طرح اگر دونوں فریق بیع کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، اور بیع سے کسی فریق نے بھی انکار نہیں کیا، تو بھی بیع لازم ہو جاتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA)
:
Allah's Apostle (ﷺ) said, "Both the buyer and the seller have the option of cancelling or confirming the bargain, as long as they are still together, and unless they separate or one of them gives the other the option of keeping or re حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2130٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2112٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1970٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2112٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
2006٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2051٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2112٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2112١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2112 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × اس عنوان کے دو محل ہیں:
٭ جب بائع اور مشتری میں سے کسی کو خیار شرط حاصل ہوجائے تو بیع واجب ہو جائے گی اگرچہ حکم متاخر ہوگا۔
٭جب دونوں میں سے ایک نے دوران بیع میں کہہ دیا کہ تو اپنے لیے قبول یا رد اختیار کرلے اور اس نے قبول کو اختیار کیا تو بیع واجب ہوجائے گی اور ملکیت کا حکم ثابت ہوجائے گا۔
اس میں دیر نہیں ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2112