صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
46. بَابُ إِذَا كَانَ الْبَائِعُ بِالْخِيَارِ، هَلْ يَجُوزُ الْبَيْعُ:
باب: اگر بائع اپنے لیے اختیار کی شرط کر لے تو بھی بیع جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2114
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا"، قَالَ هَمَّامٌ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي: يَخْتَارُ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَذَبَا وَكَتَمَا، فَعَسَى أَنْ يَرْبَحَا رِبْحًا وَيُمْحَقَا بَرَكَةَ بَيْعِهِمَا. قَالَ: وَحَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ، يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبان نے بیان کیا، کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوخلیل نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے اور ان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بیچنے اور خریدنے والے کو جب تک وہ جدا نہ ہوں (بیع توڑ دینے کا) اختیار ہے۔ ہمام راوی نے کہا کہ میں نے اپنی کتاب میں لفظ «يختار» تین مرتبہ لکھا ہوا پایا۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور بات صاف صاف واضح کر دی تو انہیں ان کی بیع میں برکت ملتی ہے اور اگر انہوں نے جھوٹی باتیں بنائیں اور (کسی عیب کو) چھپایا تو تھوڑا سا نفع شاید وہ کما لیں، لیکن ان کی بیع میں برکت نہیں ہو گی۔ (حبان نے) کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن حارث سے سنا کہ یہی حدیث وہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روایت کرتے تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1246  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1246]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جدانہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے،
خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے،
بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جوظاہرکے خلاف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1246   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3459  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3459]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
خلاصہ ان روایات کا یہ ہے۔
کہ خریدار اور مالک ایک دوسرے سے جب تک جدا نہ ہوجایئں۔
مالک اور خریدار کو دونوں کو سودا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔
جدائی سے مراد صرف گفتگو کا اختتام نہیں ہے۔
بلکہ جسمانی طور پر جدائی ہے۔
تاہم اختیار کی مہلت طے ہوجائے۔
تو اور بات ہے۔
پھر اس مہلت تک اختیار باقی رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3459   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2114  
2114. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بائع اور مشتری کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں۔۔۔ ہمام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اس طرح پایا کہ وہ تین بار اختیار کرے۔۔۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی اس بیع میں برکت ہوگی اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں اور عیب وغیرہ چھپائیں تو شاید انھیں نفع تو ہوگا لیکن اس بیع سے برکت کو ختم کردیا جائے گا۔ حبان نے کہا: ہم کو ہمام نے خبر دی، ا نھوں نے کہا: ہم سے ابو تیاح نے بیان کیا، انھوں نے عبد اللہ بن حارث کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے اور انھوں نے اس حدیث کو نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2114]
حدیث حاشیہ:
یعنی خریدنے والا تین دفعہ اپنی پسند کا اعلان کردے تو بیع لازم ہو جاتی ہے اوپر کی روایت میں جو ہمام نے اپنی یاد سے کی ہے یوں ہے ''البیعان بالخیار'' لیکن ہمام کہتے ہیں میں نے اپنی کتاب میں جو اس حدیث کو دیکھا تو یختار کا لفظ تین بار لکھا ہوا پایا۔
بعض نسخوں میں یختار کے بدل یخیار ہے۔
)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2114   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2114  
2114. حضرت حکیم بن حزام ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بائع اور مشتری کو اختیار ہے جب تک وہ جدانہ ہوں۔۔۔ ہمام کہتے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب میں اس طرح پایا کہ وہ تین بار اختیار کرے۔۔۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان کی اس بیع میں برکت ہوگی اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں اور عیب وغیرہ چھپائیں تو شاید انھیں نفع تو ہوگا لیکن اس بیع سے برکت کو ختم کردیا جائے گا۔ حبان نے کہا: ہم کو ہمام نے خبر دی، ا نھوں نے کہا: ہم سے ابو تیاح نے بیان کیا، انھوں نے عبد اللہ بن حارث کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے حضرت حکیم بن حزام ؓ سے اور انھوں نے اس حدیث کو نبی ﷺ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2114]
حدیث حاشیہ:
(1)
بيعان سے خریدوفروخت کرنے والے دونوں مراد ہیں۔
عقد مجلس میں سودا پختہ یا فسخ کرنے کا دونوں کو اختیار ہے۔
جس طرح خریدنے والا دوران مجلس میں بیع واپس کرنے اور قیمت لینے کا مجاز ہے اسی طرح بائع بھی قیمت واپس کرنےاور اپنی فروخت کردہ چیز لینے کا اختیار رکھتا ہے۔
مشتری کو اختیار دینا اور بائع کو اس سے محروم رکھنا قرین انصاف نہیں۔
بائع کو اختیار دینے سے بیع کا انعقاد متاثر نہیں ہوگا۔
(2)
روایت میں حضرت حمام کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ انھوں نے یہ حدیثاپنی یادداشت سے بیان کرنے کے بعد اپنی کتاب دیکھی تو وہاں اس طرح پایا:
وہ تین بار اختیار کرے یعنی خریدنے والا تین دفعہ اپنی پسند کا اعلان کرے۔
یہ الفاظ غیر محفوط ہیں اور حضرت قتادہ سے بیان کرنے والے دوسرے راویوں کے بھی خلاف ہیں،لہٰذا یہ الفاظ کسی صورت میں قبول نہیں ہوں گے۔
(فتح الباري: 422/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2114