سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة -- کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
6. بَابُ : الأَكْلِ مُتَّكِئًا
باب: ٹیک لگا کر کھانا کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3262
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا آكُلُ مُتَّكِئًا".
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 13 (5398، 5399)، سنن ابی داود/الأطعمة 17 (3769)، سنن الترمذی/الاطعمة 28 (1830)، (تحفة الأشراف: 11801)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/308، 309)، سنن الدارمی/الأطعمة 31 (2115) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تکیہ لگا کر کھانا تکبر اور گھمنڈ کی نشانی ہے، اس وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پرہیز کیا، اور بعضوں نے کہا: عجمیوں کی نشانی ہے جو تکلف میں پھنسے ہوئے ہیں، اور آپ عرب میں پیدا ہوئے تھے بے تکلفی کو پسند کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1830  
´ٹیک لگا کر کھانے کی کراہت کا بیان۔`
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1830]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ٹیک لگا نے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلہ میں کئی باتیں کہی جاتی ہیں:

(1)
کسی ایک جانب جھک کر کھانا جیسے دائیں یا بائیں ہاتھ یا کمنی پر ٹیک لگانا،

(2)
زمین پر بچھے ہوئے گدے پر اطمینان و سہولت کی خاطر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا تاکہ کھانا زیادہ کھایا جائے،
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے بیٹھنے کو ٹیک لگا کر بیٹھنا قرار دینا صحیح نہیں ہے،
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ مستحب انداز بیٹھنے کا یہ ہے کہ پیروں کے تلوؤں پر گھٹنوں کے بل بیٹھے،
یا دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بائیں پربیٹھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1830