سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة -- کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
9. بَابُ : لَعْقِ الأَصَابِعِ
باب: (کھانے کے بعد) انگلیاں چاٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3270
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْسَحْ أَحَدُكُمْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے چاٹ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 18 (2033)، (تحفة الأشراف: 2745)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/301، 331، 337، 365، 393) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ سنت ہے گو اس زمانہ میں بعض متکبر دنیا دار اس کو تہذیب کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ خود بے تہذیب ہیں، جب آدمی پاک صاف ہو، اور ہاتھ دھو کر کھانا کھائے، تو انگلیاں چاٹنے میں کیا قباحت ہے، البتہ ہاتھ نجس ہو اور چمچہ سے کھانا کھائے تو نہ چاٹے، اس سے پہلا ادب یہ بتلایا گیا ہے کہ «بسم اللہ» پڑھ کر کھانے یا پینے کا آغاز کیا جائے، دوسرا ادب یہ کہ داہنے ہاتھ سے کھایا جائے، اور تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے اور اپنے قریب سے کھایا جائے،اس صورت میں ہے کہ جب کھانا کسی بڑے برتن (طباق سینی یا تھالی وغیرہ) میں ہو اور بیک وقت کئی افراد مل کر کھا رہے ہوں، اور کھانا بھی ایک ہی قسم کا ہو اگر مختلف اقسام کی چیزیں ہوں، تو پھر دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہاتھ بڑھا کر چیز لینا جائز ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3270  
´(کھانے کے بعد) انگلیاں چاٹنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے ہاتھ کو صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے چاٹ لے، اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3270]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانا کھانے کےبعد ہاتھ کی انگلیوں کو زبان سے صاف کر لینا چاہیے۔

(2)
غذا کا معمولی حصہ ضائع کرنا بھی نعمت کی ناشکری ہے۔

(3)
بغیر صاف کیے ہاتھ کو کپڑے سے پونچھنا یا پانی سے دھونا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کپڑا خراب ہو گا یا پانی ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا پڑے گا اور ہاتھ کو لگے ہوئے غذا کے ذرات نانی میں جائیں گے جو رزق کی نعمت کی ناقدری ہے۔

(4)
برکت ایک معنوی اور غیر محسوس چیز ہے۔
اس کے حصوں کےلیے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور رزق کو ضائع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(5)
کسی سے چٹوانا اس وقت درست ہے جب دوسرا آدمی اس میں کراہت محسوس نہ کرے مثلاً:
بیوی یا اولاد وغیرہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3270   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1802  
´گرے ہوئے لقمہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے اور نوالہ گر جائے تو اس میں سے جو ناپسند سمجھے اسے ہٹا دے ۱؎، اسے پھر کھا لے، اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1802]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی گرے ہوئے نوالہ پر جو گردوغبار جم گیا ہے،
اسے ہٹا کر اللہ کی اس نعمت کی قدر کرے،
اسے کھالے،
شیطان کے لیے نہ چھوڑے کیوں کہ چھوڑنے سے اس نعمت کی ناقدری ہوگی،
لیکن اس کابھی لحاظ رہے کہ وہ نوالہ ایسی جگہ نہ گرا ہو جو ناپاک اور گندی ہو،
اگر ایسی بات ہے تو بہتر ہوگا کہ اسے صاف کرکے کسی جانور کو کھلادے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1802