سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة -- کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
14. بَابُ : فَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى الطَّعَامِ
باب: دیگر کھانوں پر ثرید کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3280
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" كَمَلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ , وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ , كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے لیکن عورتوں میں سوائے مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے کوئی کامل نہیں ہوئی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأنبیاء 32 (3411)، 46 (3433)، فضائل الصحابة 30 (4769)، الأطعمة 25 (5418)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 12 (2431)، سنن الترمذی/الأطعمة 31 (1834)، سنن النسائی/عشرة النساء 3 (3399)، (تحفة الأشراف: 9029)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/394، 409) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ثرید بلا دقت بن جاتا ہے، اور اس کے ساتھ جلدی ہضم ہونے والا، خوش ذائقہ، مقوی، اور بے حد نفع بخش ہے، ایسے ہی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے، اور سیکڑوں مسئلے معلوم ہوئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1834  
´ثرید کی فضیلت کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں میں سے بہت سارے مرد درجہ کمال کو پہنچے ۱؎ اور عورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ درجہ کمال کو پہنچیں اور تمام عورتوں پر عائشہ کو اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح تمام کھانوں پر ثرید کو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1834]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چنانچہ مردوں میں سے انبیاء،
رسل،
علما،
خلفاء،
اور اولیاء ہوئے۔

2؎:
ثرید:
اس کھانے کو کہتے ہیں جس میں گوشت کے ساتھ شوربے میں روٹی ملی ہوئی ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1834