صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
58. بَابُ لاَ يَبِيعُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ وَلاَ يَسُومُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ، حَتَّى يَأْذَنَ لَهُ أَوْ يَتْرُكَ:
باب: کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیع میں دخل اندازی نہ کرے اور اپنے بھائی کے بھاؤ لگاتے وقت اس کے بھاؤ کو نہ بگاڑے جب تک وہ اجازت نہ دے یا چھوڑ نہ دے۔
حدیث نمبر: 2140
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ، وَلَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِهَا لِتَكْفَأَ مَا فِي إِنَائِهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال و اسباب بیچے اور یہ کہ کوئی (سامان خریدنے کی نیت کے بغیر دوسرے اصل خریداروں سے) بڑھ کر بولی نہ دے۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے میں مداخلت نہ کرے۔ کوئی شخص (کسی عورت کو) دوسرے کے پیغام نکاح ہوتے ہوئے اپنا پیغام نہ بھیجے۔ اور کوئی عورت اپنی کسی دینی بہن کو اس نیت سے طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو خود حاصل کر لے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 506  
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 353- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تناجشوا، ولا يبع حاضر لباد، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها، إن رضيها أمسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باہر سے سودا لانے والوں کو سودا خریدنے کے لئے پہلے جا کر نہ ملو اور نہ تم میں سے کوئی آدمی دوسرے سودے پر سودا کرے اور (دھوکا دینے کے لئے جھوٹی) بولی نہ لگاو اور شہری دیہاتی کے لئے نہ بیچے اور اونٹنیوں اور بکریوں کے تھنوں میں (بیچنے کے لئے) دودھ نہ روکو، پھر اگر کوئی شخص اس کے بعد ایسا جانور خرید لے تو اسے دوھنے کے بعد دو میں سے ایک اختیار ہے: اگر اسے پسند ہو تو (سودا باقی رکھ کر) اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور اگر ناپسند ہو تو اس جانور کو کھجوروں کے ایک صاع کے ساتھ واپس کر دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 506]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2150، ومسلم 11/1515، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا حرام ہے۔
➋ منڈی کے بھاؤ سے ناواقف شخص سے سستا سودا خریدنا تاکہ اسے مسلمانوں کے ہاتھوں پر مہنگے داموں بیچا جائے، حرام ہے۔
➌ جھوٹی بولی لگانا جائز نہیں ہے۔
➍ جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر جانور بیچنا حرام ہے۔ اس میں صریح دھوکا ہے۔
➎ اگر کوئی شخص تھنوں میں دودھ روکے ہوئے جانور کو خریدلے تو پھر اسے اختیار ہے کہ تین دن کے اندر اندر اسے بیچنے والے کو واپس کردے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع (ڈھائی کلو) بھی دے دے۔
◄ جلیل القدر فقیہ صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: جو شخص تھنوں میں دودھ روکی ہوئی بکری خریدے تو اس کے ساتھ کھجور کا ایک صاع بھی واپس کردے۔ [صحيح بخاري: 2149، وصحيح مسلم: 1518]
● معلوم ہوا کہ حدیث بالا قیاس کے خلاف نہیں ہے لہٰذا بعض منکرینِ حدیث کا اس حدیث کے سلسلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا یا آپ کو غیر فقیہ کہنا غلط ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 353   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2172  
´نہ اپنے بھائی کے سودے پر سودا لگائے اور نہ اس کے دام پر دام لگائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بیع پر بیع کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص خریدنے والے سے کہے:
تونے جو چیز خریدی ہے واپس کردے، میں تجھےایسی ہی چیز اس سے کم قیمت پر دوں گا۔
یا بیچنے والے سے کہے:
جو چیز بیچی ہے واپس لےلو، میں تمہیں اس سے زیادہ قیمت دے دوں گا۔
یہ دونوں باتیں منع ہیں کیونکہ ایسی باتوں سے جھگڑا اور فساد پیدا ہوتا ہے۔

(2)
  سودے پر سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز خرید رہا ہے، وہ کہتا ہے:
میں اتنی قیمت دوں گا۔
دوسرا آدمی اس سے زیادہ قیمت پیش کرنےلگے تا کہ پہلا آدمی دھوکا کھا کر زیادہ قیمت پر خرید لے۔

(3)
  جب خریدار اور فروخت کار ایک قیمت پر متفق ہو جائیں تو تیسرے آدمی کو دخل دینا جائز نہیں، البتہ ان کا سودا طے نہ پا سکے اور بات ختم ہو جائے تو پھر تیسرا آدمی خریدار سے یا بیچنے والے سے بات کرسکتا ہے۔

(4)
  ایسی حرکات سے اجتناب ضروری ہے جن سے مسلمانوں میں جھگڑے پیدا ہوں اور کسی کی حق تلفی ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2172   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1221  
´مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہرکی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جاملے تاکہ بھاؤکے متعلق بیان کرکے اس سے سامان سستے داموں خرید لے،
ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے،
چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازارکی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہوسکتا ہے،
اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3437  
´تاجروں سے بازار میں آنے سے پہلے جا کر ملنا اور ان سے سامان تجارت خریدنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3437]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
راستے میں مال لانے والے سے مل کر سودا کرنے کا عموما مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔
کہ بازار سے کم قیمت پر خرید لیا جائے۔
اور بازار کا بھائو مالک کے علم میں ہی نہ آئے۔
یہ طریقہ تجارت کےآزادانہ طور پر جاری رہنے میں رکاوٹ ہے۔
مارکیٹ کے عوامل میں اس طرح کی مداخلت ممنوع ہے۔
دوسرے مسلمان بھائی کی بے خبری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔
جو مذموم ہے۔
اس لئے ممانعت کے ساتھ ہی یہ طے کردیا گیا کہ اگر راستے میں سودا طے ہو اور اس کے بعد بیچنے والے کو پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔
تو اسے بیع واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3437   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2140  
2140. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کے لیے خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایا، نیز دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانے سے بھی منع کیا اور کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر اپنی منگنی کاپیغام ہی بھیجے۔ اسی طرح نہ کوئی عورت اپنی بہن کو طلاق دینے کا مطالبہ ہی کرے تاکہ جو کچھ اس کے برتن میں ہے اسے انڈیل دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2140]
حدیث حاشیہ:
یعنی باہر والے جو غلہ یا اشیاءباہر سے لاتے ہیں، وہ اکثر بستی والوں کے ہاتھ سستا بیچ کر گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
اب کوئی شہر والا ان کو بہکائے، اور کہے ابھی نہ بیچو، یہ مال میرے سپرد کردو، میں اس کو مہنگا بیچ دوں گا۔
تو اس سے منع فرمایا، کیوں کہ یہ بستی والوں کو نقصان پہنچانا ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ محض بھاؤ بگاڑنے کے لیے بولی چڑھا دیتے ہیں۔
اور ان کی نیت خریدنے کی نہیں ہوتی۔
یہ سخت گناہ ہے اپنے دوسرے بھائی کو نقصان پہنچانا ہے۔
اسی طرح ایک عورت کے لیے کسی مرد نے پیغام نکاح دیا ہے تو کوئی دوسرا اس کو پیغام نہ دے کہ ہ بھی اپنے بھائی کی حق تلفی ہے۔
اسی طرح کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کو یہ جائز نہیں کہ اس کی پہلی موجودہ بیوی کو طلاق دلوانے کی شرط لگائے کہ یہ اس بہن کی سخت حق تلفی ہے۔
اس صورت میں وہ عورت اور مرد ہر دو گنہگار ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2140   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2140  
2140. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہری کو دیہاتی کے لیے خریدو فروخت کرنے سے منع فرمایا، نیز دھوکا دینے کے لیے قیمت بڑھانے سے بھی منع کیا اور کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ اپنے بھائی کی منگنی کے پیغام پر اپنی منگنی کاپیغام ہی بھیجے۔ اسی طرح نہ کوئی عورت اپنی بہن کو طلاق دینے کا مطالبہ ہی کرے تاکہ جو کچھ اس کے برتن میں ہے اسے انڈیل دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2140]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کو اجازت دینے یا چھوڑجانے کے ساتھ مقید کیا ہے جبکہ احادیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے صحیح مسلم کی روایت طرف اشارہ کیا ہے جس میں اس قید کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3812(1412)
اسی طرح بھاؤ پر بھاؤ لگانے کا ذکر بھی ان احادیث میں نہیں ہے، البتہ امام بخاری نے کتاب الشروط میں جس روایت کو بیان کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:
کوئی آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ لگائے۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2727) (2)
واضح رہے کہ ان احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ کسی دوسرے کی خریدوفروخت میں مداخلت کرنا، یہ امر اخلاق کریمانہ سے بعید ہے کہ ایک شخص اپنا سامان بیچ رہا ہویا کوئی شخص کچھ خریدرہا ہو تو کوئی دوسرا شخص درمیان میں کود پڑے اور ان کے سودے میں مداخلت کرے۔
٭دیہاتی لوگ جو اپنی اشیاء اہل شہر سے سستے داموں فروخت کرجاتے ہیں، ان سے کوئی شہری کہے کہ تم اسے فروخت نہ کرو بلکہ میرے پاس رکھ جاؤ، میں اسے مہنگے دام فروخت کروں گا۔
ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس سے شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
٭کچھ لوگ بھاؤ چڑھانے کے لیے بولی دیتے ہیں لیکن ان کی نیت کچھ بھی خریدنے کی نہیں ہوتی،ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے، البتہ نیلامی میں لینے کی نیت سے بڑھ چڑھ کو بولی دی جاسکتی ہے۔
٭اگر کسی مرد نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے،ابھی بات چیت کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچتی کہ دوسرا اسے پیغام دے، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے پہلے مردکی حق تلفی ہوتی ہے۔
٭ کوئی عورت کسی شادی شدہ مرد سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو وہ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی شرط لگادے، ایسا کرنا بھی جائز نہیں۔
ایسا کرنے سے مرد اور عورت دونوں گناہ گار ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2140