سنن ابن ماجه
كتاب الأدب -- کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
34. بَابُ : الرَّجُلِ يُكَنَّى قَبْلَ أَنْ يُولَدَ لَهُ
باب: اولاد ہونے سے پہلے کنیت رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3740
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ,، عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَأْتِينَا فَيَقُولُ لِأَخٍ لِي وَكَانَ صَغِيرًا:" يَا أَبَا عُمَيْرٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، آپ اسے ابوعمیر کہہ کر پکارتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «أنظرحدیث رقم: 3720، (تحفة الأشراف: 1692) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: انہوں نے ہی «نغیر» نامی چڑیا پا لی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل لگی کے طور پر اس سے پوچھا کرتے اسے ابو عمیر «نغیر» چڑیا تمہاری کہاں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3740  
´اولاد ہونے سے پہلے کنیت رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، آپ اسے ابوعمیر کہہ کر پکارتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ وہی حدیث ہے جو نمبر 3720 پر گزری، یہاں اسے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ابو عمیر ؓ ابھی بچے تھے، جن کے ہاں اولاد کی موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے کنیت تجویز فرمائی اور اس کنیت سے انہیں مخاطب فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3740   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3720  
´مزاح (ہنسی مذاق) کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے (یعنی بچوں سے) میل جول رکھتے تھے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: «يا أبا عمير ما فعل النغير» اے ابوعمیر! تمہارا وہ «نغیر» (پرندہ) کیا ہوا؟ وکیع نے کہا «نغیر» سے مراد وہ پرندہ ہے جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3720]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نغیز یا نغر ایک پرندے کا نام ہے جو چڑیا کے مشابہ ہوتا ہے، اس کی چونچ سرخ ہوتی ہے۔ (النہایہ)
حافظ ابن حجر نے اس کی تشریح میں ایک قول یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد (صعو) (ممولا)
بروزن عفو ہے۔ (فتح الباري: 10/ 715)

(2)
بچوں سے دل لگی کی باتیں کرنا جائز ہے جس سے بچوں کی خوشی ہو۔

(3)
بعض لوگ چھوٹے بچوں سے مذاق میں ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے بچوں کو پریشانی ہوتی ہے۔
یہ جائز نہیں۔

(4)
پرندے وغیرہ پالنا جائز ہے بشرطیکہ ان کی خوراک وغیرہ کا مناسب خیال رکھا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3720   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 333  
´بچھونے پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ابوعمیر! «ما فعل النغير» بلبل کا کیا ہوا؟ ہماری چٹائی ۱؎ پر چھڑکاؤ کیا گیا پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 333]
اردو حاشہ:
1؎:
بساط یعنی بچھاون سے مراد چٹائی ہے کیونکہ یہ زمین پر بچھائی جاتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 333   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4969  
´آدمی کنیت رکھے اور اس کی کوئی اولاد نہ ہو تو کیسا ہے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں آتے تھے، اور میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کی کنیت ابوعمیر تھی، اس کے پاس ایک چڑیا تھی، وہ اس سے کھیلتا تھا، وہ مر گئی، پھر ایک دن اچانک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو اسے رنجیدہ و غمگین دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس کی چڑیا مر گئی، تو آپ نے فرمایا: اے ابوعمیر! کیا ہوا نغیر (چڑیا) کو؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4969]
فوائد ومسائل:
محدثین نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ مسبحع مقفی کلام جائز ہے اور جائز حدود میں منسی مزاح کی بات میں کو ئی حرج نہیں۔
اور بچوں کے ساتھ ملاطفت حسن اخلاق کا حصہ ہے۔
چھوٹی عمر میں کنیت رکھنا جائز ہے اور جانور پال لینا اس کو پنجرے میں رکھنا اور ان سے کھیلنا بھی مباح ہے۔
(امام خطابی رحمۃاللہ علیہ)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4969