صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
68. بَابُ هَلْ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِغَيْرِ أَجْرٍ وَهَلْ يُعِينُهُ أَوْ يَنْصَحُهُ:
باب: کیا کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان کسی اجرت کے بغیر بیچ سکتا ہے؟ اور کیا اس کی مدد یا اس کی خیر خواہی کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2158
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ، وَلَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ"، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ قَالَ: لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تجارتی) قافلوں سے آگے جا کر نہ ملا کرو (ان کو منڈی میں آنے دو) اور کوئی شہری، کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے، انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے کا مطلب کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2177  
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «حاضر لباد» کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2177]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس مسئلے کی تفصیل کے لیے حدیث: 2145 کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2177   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 674  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 674»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب هل يبيع حاضر لباد، حديث:2158، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الحاضرة للبادي، حديث:1521.»
تشریح:
راوئ حدیث: «حضرت طاوس رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اور نسب یوں ہے: طاوس بن کیسان حمیری۔
حمیر قبیلہ والوں کے مولا ہیں۔
فارسی النسل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ذکوان ہے اور طاوس ان کا لقب ہے۔
ثقہ ہیں۔
نہایت فاضل فقیہ ہیں اور تیسرے طبقے سے ہیں۔
ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: میرا گمان ہے کہ طاوس جنتی ہے۔
عمروبن دینار کا قول ہے: میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 674   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2158  
2158. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلہ لے کر آنے والے قافلے سے ملنے کے لیے پیش قدمی نہ کرو اور کوئی مقامی آدمی کسی بیرونی شخص کے لیے خریدوفروخت نہ کرے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا مطلب پوچھا کہ کوئی مقامی کسی بیرونی کے لیے بیع نہ کرے؟تو انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2158]
حدیث حاشیہ:
اور اس سے دلالی کا حق ٹھہرا کر بستی والوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
اگر یہ دلال نہ بنتا تو شاید غریبوں کو غلہ سستا ملتا۔
حنفیہ نے کہا کہ یہ حدیث اس وقت ہے جب غلہ کا قحط ہو۔
مالکیہ نے کہا عام ہے۔
ہمارے احمد بن حنبل ؒ سے منقول ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب پانچ باتیں ہوں۔
جنگل سے کوئی اسباب بیچنے کو آئے، اس دن کے نرخ پر بیچنا چاہے، نرخ اس کو معلوم نہ ہو۔
بستی والا قصد کرکے اس کے پاس جائے، مسلمانوں کو اس اسباب کی حاجت ہو، جب یہ پانچ باتیں پائی جائیں گی تو بیع حرام اور باطل ہوگی ورنہ صحیح ہوگی۔
(وحیدی)
سمسارا کی تشریح میں امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں بسینین مهملتین قال في الفتح و هو في الأصل القیم بالأمر و الحافظ ثم استعمل في متولی البیع و الشراء لغیرہ۔
یعنی سمسار اصل میں کسی کام کے محافظ اور انجام دینے والے شخص کو کہا جاتا ہے اور اب یہ اس کے لیے مستعمل ہے جو خرید و فروخت کی تولیت اپنے ذمے لیتا ہے جسے آج کل دلال کہتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2158   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2158  
2158. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غلہ لے کر آنے والے قافلے سے ملنے کے لیے پیش قدمی نہ کرو اور کوئی مقامی آدمی کسی بیرونی شخص کے لیے خریدوفروخت نہ کرے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا مطلب پوچھا کہ کوئی مقامی کسی بیرونی کے لیے بیع نہ کرے؟تو انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2158]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث ایک خاص معنی پر محمول ہے کہ اجرت لے کر بیع کرنا ممنوع ہے۔
اس کے برعکس اگر شہری آدمی باہر سے آنے والے کسی دیہاتی کا سامان تعاون اور خیر خواہی کے طور پر فروخت کرتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ دوسری احادیث میں مسلمان کی خیر خواہی اور اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کا حکم ہے۔
(2)
جو شخص اجرت لے کر کسی کی خریدوفروخت کرتا ہے،اس کا مقصد خیرخواہی نہیں بلکہ صرف اجرت کا حصول ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2158