صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
69. بَابُ مَنْ كَرِهَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِأَجْرٍ:
باب: جنہوں نے اسے مکروہ رکھا کہ کوئی شہری آدمی کسی بھی دیہاتی کا مال اجرت لے کر بیچے۔
حدیث نمبر: 2159
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ"، وَبِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ.
مجھ سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعلی حنفی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شہری، کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ یہی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی کہا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 505  
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 242- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يبع بعضكم على بيع بعض. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 505]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2165، ومسلم 7/1412 بعد ح1514، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر ایک شخص سودا خرید رہا ہو تو دوسرے شخص کو یہ سودا خریدنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اگر سودے کی بولی لگ رہی ہے تو یہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح353
➌ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہو اس لئے اگر صحیح حدیث یا آثار سلف صالحین سے بھی ثابت ہو جائے تو استدلال کرنا صحیح ہے۔ صحیح حدیث سے استدلال تو واجب و فرض ہے اور آثار سے استدلال جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 242   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1868  
´مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1868]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1) (خِطبۃ)
خا کی زیر سے کا مطلب ہے کہ نکاح کے لیے بات چیت شروع کرنا یعنی کسی عورت کے سرپرستوں سے یہ درخواست کرنا کہ وہ اس کا رشتہ دے دیں۔
جب کسی عورت کے لیے اس کے گھر والوں سے بات چیت ہو رہی ہو اور رشتہ طے پا جانے کی امید ہو تو دوسرے آدمی کو اس عورت کے لیے بات چیت شروع نہیں کرنی چاہیے۔

(2)
اگر محسوس ہو کہ ابھی عورت نے اس مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کیا اور اس کی طرف واضح میلان نہیں تو دوسرے آدمی بھی پیغام بھیج سکتا ہے تاکہ عورت فیصلہ کر سکے کہ اس کے لیے ان دونوں میں سے کون سا مرد زیادہ مناسب ہے اور اس کے سرپرست بھی معاملے پر بہتر انداز سے غور کر سکیں۔

(3)
اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات میں بگاڑ پیدا نہ ہو اور آپس میں ناراضی پیدا نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1868   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 832  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے تاوقتیکہ کہ پیغام نکاح دینے والا اس سے پہلے اسے از خود چھوڑ دے یا پیغام نکاح دینے والا اجازت دیدے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 832»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا يخطب علي خطبة أخيه حتي ينكح أويدع، حديث:5142، ومسلم، النكاح، باب تحريم الخطبة علي خطبة أخيه حتي يأذن أويترك، حديث:1412.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا جائز نہیں‘ مگر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو تین پیغام دیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس خاتون کو دو پیغام نکاح پہنچے تو یہ مشورے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور صورتحال بیان کر کے مشورہ طلب کیا مگر یہ اس روایت کے خلاف نہیں۔
ممکن ہے دوسری بار پیغام نکاح دینے والے کو پہلے پیغام کا علم نہ ہو۔
2.بعض نے کہا ہے کہ منگنی طے ہو جانے کے بعد پیغام نکاح کی ممانعت ہے پہلے نہیں۔
3.جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت تحریمی ہے اور یہی بات راجح ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 832   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1292  
´اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1292]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے،
بیع ہوجانے کے بعد مدت خیارکے اندر کوئی آکریہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کردے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائزنہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1292   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2081  
´آدمی کا اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام بھیجنا مکروہ ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی نہ تو اپنے بھائی کے نکاح کے پیغام پر پیغام دے اور نہ اس کے سودے پر سودا کرے البتہ اس کی اجازت سے درست ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2081]
فوائد ومسائل:
کسی شخص نے کسی گھر میں نکاح کا پیغام بھیجا ہو تو دوسرے کسی شخص کو یہ جانتے ہوئے کہا کہ انہیں پیغام دیا گیا ہے اور انہوں نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے، اپنا پیغام نہیں بھیجنا چاہیے۔
الا یہ کہ واضح ہو کہ ان کی خاموشی انکار کے معنی میں ہے۔
اگر نسبت طے ہو چکی ہو تو اپنا پیغام بھیج کر پہلی نسبت تڑوانے کی کوشش کرنا حرام ہے۔
کیونکہ اس طرح دو مسلمان بھائیوں یا خاندانوں میں کشمکش اور عداوت کا قومی اندیشہ ہے اگر ہاں پہلا فریق اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2081   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2159  
2159. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2159]
حدیث حاشیہ:
ابن عباس ؓ کا قول اوپر گزرا کہ بستی والے باہر والا کا دلال نہ بنے۔
یعنی اجرت لے کر اس کا مال نہ بکوائے اور باب کا بھی یہی مطلب ہے۔
امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں و اعلم أنه کما لا یجوز أن لا یبیع الحاضر للبادي کذلك لا یجوز أن یشتري له الخ۔
یعنی جیسے کہ شہری کے لیے دیہاتی کا مال بیچنا منع ہے اسی طرح یہ بھی منع ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے کوئی مال اس کی اطلاع اور پسند کے بغیر خریدے۔
یہ جملہ احکامات درحقیقت اس لیے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی صورت میں کسی دیہاتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2159   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2159  
2159. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2159]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عمر ؓ کی اس حدیث میں اجرت کے ساتھ شہری کا دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کی ممانعت کا ذکر نہیں ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ کی سابقہ تفسیر کی وجہ سے اسے مقید کہا گیا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اجرت کے ساتھ کسی دوسرے کے لیے خریدوفروخت ناجائز ہے اور اجرت کے بغیر خیر خواہی کے طور پر ایسا کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے نزدیک ممانعت کے لیے پانچ باتوں کا ہونا ضروری ہے:
٭ دیہات سے کوئی آدمی اپنا سامان بیچنے کےلیے آئے۔
٭وہ اسی دن کے بھاؤ پر سامان فروخت کرنا چاہتا ہو۔
٭بھاؤ کا اسے علم نہ ہو۔
٭شہری آدمی قصد کرکے اس کے پاس جائے۔
٭مسلمانوں کو دیہاتی کے سامان کی ضرورت ہو۔
اگر یہ باتیں موجود ہوں تو شہری کا دیہاتی کے لیے خریدوفروخت کرنا ناجائز ہے بصورت دیگر صحیح ہے۔
یہ جملہ احکامات در حقیقت اس لیے ہیں کہ کوئی شہری کسی بھی صورت میں کسی دیہاتی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2159