صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
70. بَابُ لاَ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِالسَّمْسَرَةِ:
باب: اس بیان میں کہ کوئی بستی والا باہر والے کے لیے دلالی کر کے مول نہ لے۔
حدیث نمبر: 2161
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں اس سے روکا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3440  
´شہری دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے اگرچہ وہ اس کا بھائی یا باپ ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے حفص بن عمر کو کہتے ہوئے سنا: مجھ سے ابوہلال نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے محمد نے بیان کیا انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: لوگ کہا کرتے تھے کہ شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے، یہ ایک جامع کلمہ ہے (مفہوم یہ ہے کہ) نہ اس کے واسطے کوئی چیز بیچے اور نہ اس کے لیے کوئی چیز خریدے (یہ ممانعت دونوں کو عام ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3440]
فوائد ومسائل:
اس باب میں مذکورہ احادیث سے دلالی کے مسئلے پر روشنی پڑتی ہے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کوئی شہری دیہاتی کےلئے اس کی لائی ہوئی اشیاء فروخت نہ کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔
باب کی آخری حدیث میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ لوگوں کی خرید وفروخت کے معاملے میں مداخلت نہ کی جائے۔
اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے۔
یہ مارکیٹ کی قوتوں کوآزاد رکھنے کی تلقین ہے۔
آپﷺ نے اس وجہ سے قیمتیں مقرر کر دینے کو روانہ سمجھا۔
بلکہ قیمتوں کو رسد اور طلب کے فطری توازن کا نتیجہ قراردیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ دیہات سے ضرورت کی اشیاء شہر میں لاتے ہیں۔
ان کو لالچ دے کر اپنی کوششوں سے قیمتوں میں اضافہ کروانا اور پھر اس میں حصہ دار بننا بنیادی طور پر آزاد مارکیٹ میں ناپسندیدہ مداخلت ہے۔
اس سے اشیاء ضرورت ناروا طور پر مہنگی ہوتی ہیں۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔
دوسری طرف ابوداود ہی کی کتاب البیوع کی پہلی حدیث میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بازار جاکر دلالوں کو سمسار کی بجائے جو ایک عجمی لفظ ہے۔
زیادہ قابل احترام نام تاجر سے پکارا۔
جس پر یہ حضرات بہت خوش ہوئے۔
آپﷺ نے ان کو تلقین فرمائی کہ بیع وشراء کے معاملے میں انسان سے کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔
اس لئے تم لوگوں کوصدقہ کرتے رہنا چاہیے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دلالی بطور ایک باقاعدہ ادارے کے موجود تھی۔
اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو ختم نہ فرمایا شہروں میں بڑے پیمانے پر اشیائے صرف دور دراز سے آتی ہیں۔
جب مال کے ساتھ تاجر خود موجود نہ ہو یا مال اتنا ہو کہ سارا وہ خود نہ بیچ سکتا ہو۔
یا مقامی زبانوں تجارتی اصطلاحوں طور طریقوں اور مقامی تجارتی پارٹیوں کے قابل اعتبار ہونے نہ ہونے کے بارے میں ناواقفیت کے سبب مال لانے والوں کو شدید مشکلات درپیش ہوں تو ان کےلئے مقامی دلال یا ایجنٹ کی خدمات ضروری ہیں۔
ورنہ وہ اپنا مال منڈی میں نہ بھیجیں گے۔
اس لئے اس کاروبار کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
نہ رسول اللہ ﷺ نے دلالوں کو کاروبار ختم کرنے کا حکم ہی دیا ہے۔
بظاہر دونوں باتیں ایک دوسرے سے متضاد نظرآتی ہیں۔
لیکن دونوں کو اپنے اپنے مقام پررکھ کر دیکھا جائے تو حقیقتاً کوئی تضاد نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے سمسار کے کاروبار کوبند کرنے کا حکم دینے کی بجائے اس کاروبار کے ایک حصے کے بارے میں فرمایا کہ کوئی شہری دیہاتی کی طرف سے نہ بیچے۔
یعنی دوسرے علاقوں کے شہری تاجردلالوں کی خدمات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
البتہ شہر کے ارد گرد کے لوگ جو اپنی اپنی زرعی پیداوار شہر میں بیچنے کے لئے لے کر آتے ہیں۔
ان کے معاملے میں مداخلت نہ کی جائے۔
تاکہ ان اشیاء کی خریدوفروخت فطری طریقے پر جاری رہے۔
امام مالک کا مسلک یہی ہے۔
ہمارے فقہاء نے آپ کے اس فرمان اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے۔
کا محض یہ مطلب لیا ہے۔
کہ دیہات سے اشیاء لانے والے افراد منڈی میں سستی بیچ جایا کریں گے۔
تو اس میں شہر والوں کی اجتماعی بھلائی ہوگی۔
آج کل جو کچھ سامنے آتا ہے۔
وہ اس کے برعکس ہے بلدیاتی اداروں نے دیہات سے تھوڑی مقدار میں اشیاء لانے والوں کو قانوناً مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنی اشیاء دلالوں کے ذریعے سے فروخت کریں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف تو عام گاہک کےلئے چیزیں مہنگی ہوگیئں۔
دوسری طرف دیہاتیوں کو ان کی پیداوار کی بہت کم قیمت ملتی ہے۔
سارا منافع درمیان کے لوگ لے جاتے ہیں۔
روز مرہ کی اشیاء جن کی دہیات سے رسد جاری رہتی ہے۔
اگر دلالوں کی مداخلت سے الگ کردی جایئں۔
جس طرح ر سول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔
تو دونوں فریقوں کو بے حد فائدہ پہنچے گا۔
یہی آپ ﷺ کے فرمان مداخلت نہ کرو اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے رزق دیتا ہے۔
کا حقیقی مفہوم ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3440   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2161  
2161. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہمیں اس سے منع کیا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال تجارت بیچے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2161]
حدیث حاشیہ:
(1)
شہری آدمی کو کسی دیہاتی کی سادگی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے،دلالی کے ساتھ اس کا سامان نہ خریدے اور نہ بازار سے اسے سامان لے کرہی دے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں ایک خاص اسلوب اختیار کیا ہے اور اس کے متعلق تین عنوان قائم کیے ہیں:
پہلے عنوان میں ھل کے ساتھ اس کی کراہت کو ذکر کیا۔
دوسرے عنوان میں اجرت کےساتھ اس کی خریدوفروخت کو مکروہ قرار دیا اوراس تیسرے عنوان میں دلالی کے ساتھ نفی کو مقید کیا۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
ہمیں منع کیا گیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان فروخت کرے، خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی یا باپ ہی ہو۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3828(1523)
بہرحال منع کی صورت یہ ہے کہ ایک اجنبی آدمی دیہات یا کسی دوسرے شہر سے ایسا سامان لے کر آتا ہے جس کی تمام لوگوں کو ضرورت ہے اور وہ اس دن کے بھاؤ سے فروخت کرنا چاہتا ہے، اگر اسے شہری کہتا ہے کہ اپنا یہ سامان میرے پاس چھوڑ دوتاکہ میں اسے بتدریج اعلیٰ نرخ پر فروخت کروں۔
بعض فقہاء ان احادیث کو منسوخ کہتے ہیں جن میں ممانعت کا ذکر ہے۔
ان کے ہاں ایسا کرنا مطلق طور پر جائز ہے۔
ہمارے نزدیک ان کا موقف محل نظر ہے۔
(3)
واضح رہے کہ جس شہری کے لیے کسی دیہاتی کا سامان فروخت کرنا جائز نہیں، اسی طرح اس کے لیے خریدنا بھی جائز نہیں کیونکہ لفظ بیع دونوں معنوں (خریدوفروخت)
میں مستعمل ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2161