صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
75. بَابُ بَيْعِ الزَّبِيبِ بِالزَّبِيبِ وَالطَّعَامِ بِالطَّعَامِ:
باب: منقی کو منقی کے بدل اور اناج کو اناج کے بدل بیچنا۔
حدیث نمبر: 2172
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ الْمُزَابَنَةِ"، قَالَ: وَالْمُزَابَنَةُ أَنْ يَبِيعَ الثَّمَرَ بِكَيْلٍ إِنْ زَادَ فَلِي وَإِنْ نَقَصَ فَعَلَيَّ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا۔ انہوں نے بیان کیا کہ مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص درخت پر کی کھجور سوکھی کھجور کے بدل ماپ تول کر بیچے۔ اور خریدار کہے اگر درخت کا پھل اس سوکھے پھل سے زیادہ نکلے تو وہ اس کا ہے اور کم نکلے تو وہ نقصان بھر دے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1300  
´عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1300]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دوایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے لیکن دینے کے بعد بار باراس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے توکہے:
بھائی اندازہ لگاکرخشک یا ترکھجورہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑدو ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے،
اور وہ بھی مسکینوں کومل رہا ہے اس لیے اسے جائزقرار دیا گیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1300   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2172  
2172. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مزابنہ سے منع فرمایا۔ اور مزابنہ یہ ہے کہ(تازہ) پھل (خشک پھل کے عوض) اس طرح ناپ کر فروخت کرے کہ اگر زیادہ ہوا تو میرا اور اگر کم ہوا تو میں خود اس کاذمہ دار ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2172]
حدیث حاشیہ:
بیع مزابنہ یہ ہے کہ اندازے سے تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض خرید کیا جائے اور خریدتے وقت یہ کہا جائے کہ اندازہ کردہ کھجور جو ماپ کے مساوی خیال کی گئی ہیں اگر زیادہ ہوئیں تو میری اور اگر کم ہوں تو اس کا نقصان میں خود برداشت کروں گا۔
اس قسم کی خریدوفروخت سے ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2172