صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
50. بَابُ مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْ لَحْمِ الشَّاةِ وَالسَّوِيقِ:
باب: بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے۔
حدیث نمبر: 208
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَزُّ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ، فَدُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَلْقَى السِّكِّينَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہمیں لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 208  
´بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے`
«. . . حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، " أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَزُّ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ، فَدُعِيَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَأَلْقَى السِّكِّينَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ " . . . .»
. . . لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انہیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْ لَحْمِ الشَّاةِ وَالسَّوِيقِ:: 208]

تشریح:
کسی بھی جائز اور مباح چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جن روایات میں ایسے وضو کرنے کا ذکر آیا ہے وہاں لغوی وضو یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا۔ کلی کرنا مراد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 208   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1836  
´چھری سے گوشت کاٹنے کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے بکری کی دست کا گوشت چھری سے کاٹا، اور اس میں سے کھایا، پھر نماز کے لیے تشریف لے گئے اور وضو نہیں کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1836]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھایا جا سکتا ہے،
طبرانی اور ابوداؤد میں ہے کہ چھری سے گوشت کاٹ کر مت کھاؤ کیوں کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے،
لیکن یہ روایتیں ضعیف ہیں،
ان سے استدلال درست نہیں،
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آگ سے پکی چیز کھانے سے وضوء نہیں ٹوٹتا،
کیوں کہ آپ ﷺ نے گوشت کھاکر وضو نہیں کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1836   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:208  
208. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے چھری رکھ دی، نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:208]
حدیث حاشیہ:

عنوان میں دو چیزیں ہیں بکری کا گوشت اور ستو، امام بخاری ؒ نے دو حدیثیں ذکر کی ہیں، لیکن کسی ایک میں بھی ستو کا ذکر نہیں۔
دراصل نصوص سے مسائل کا استنباط کئی ایک طریقوں سے ہوتا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اس مسئلے میں واضح طور پر ذکر ہو۔
اسے عبارۃ النص کہا جاتا ہے۔
بکری کے گوشت کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنا عبارۃ النص سے ثابت کیا ہے۔
بعض دفعہ الفاظ سے براہ راست نہیں بلکہ ان کی رہنمائی میں مسئلے کا استنباط کیا جاتا ہے۔
اسے دلالۃ النص کہا جاتا ہے۔
ستو استعمال کرنے کے بعد وضو نہ کرنا دلالۃ النص سے ثابت ہے۔
وہ اس طرح کہ گوشت میں چکناہٹ ہوتی ہے، جب آپ نے چکناہٹ والی چیز استعمال کرنے کے بعد وضو نہیں کیا تو ستو جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی ان کے استعمال کے بعد بدرجہ اولیٰ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے۔
چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
(باب قطع اللحم بالسكين)
گوشت کا چھری سے کاٹنا۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، باب: 20)
لیکن حضرت عائشہ ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھری سے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
کیونکہ عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3778)
اس کی تطبیق یہ ہے کہ منع کی یہ حدیث صحیح نہیں، بلکہ امام ابن جوزی ؓ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؓ نے لکھا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر چھری وغیرہ کا استعمال درست ہے، لیکن بلاوجہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا یہ اعاجم اور عیش پسند لوگوں کے ساتھ تشبیہ ہے۔
جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔
(فتح الباري: 407/1)
چھری کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب گوشت اچھی طرح پکا ہوا نہ ہو، یعنی سخت ہو یا اس کے ٹکڑے بڑے بڑے ہوں، تو ایسے حالات میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے، البتہ ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا عجمیوں کا طریقہ ہے۔
قاضی عیاض، ملا علی قاری اور امام بیہقی ؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

حدیث میں ہے کہ جب رات کا کھانا سامنے آ جائے اور نماز کا وقت بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے۔
پھراطمینان سے نماز پڑھی جائے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ کھانے کے متعلق یہ ہدایت مقرر امام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔
مسجد کا مقرر امام اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اس کے کھانے میں مشغولیت کی وجہ سے مسجد کے تمام نمازیوں کو انتظار کی تکلیف اٹھانی پڑے گی اور نماز میں بھی تاخیر ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلال ؓ نے نماز کے لیے بلایا تو آپ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔
(فتح الباري: 407/1)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر امام راتب کے مستثنیٰ ہونے کا عنوان بھی قائم کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 675)
آگ پر پکی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرنے یا نہ کرنے کی وضاحت کے بعد ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر ان حضرات کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کا وتیرہ تدبر حدیث کی آڑ میں احادیث سے مذاق کرنا ہے، چنانچہ:
امام تدبر لکھتے ہیں:
معلوم نہیں کہاں سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ گوشت یا ستو وغیرہ کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس بارے میں ایک مذہب یہ ہے کہ وضو کا یہ حکم پہلے تھا، لیکن بعد میں منسوخ ہو گیا، یہ توجیہ کسی عقلی یا نقلی بنیاد پر نہیں ہے، عوامی باتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔
(تدبر حدیث: 302/1)
اصلاحی صاحب نے احادیث نبویہ کو عوامی باتوں سے تعبیر کر کے ان کا استخفاف کیا ہے۔
گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کی نقلی بنیاد تو آپ معلوم کر چکے ہیں، اس کی عقلی بنیاد یہ ہے کہ حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ آگ سے تیار ہونے والی چیزوں میں قوت ناریہ کے اثرات آجاتے ہیں جو شیطان کا مادہ ہے، یعنی وہ اس سے پیدا ہوا ہے اورآگ پانی سے بجھ جاتی ہے، اس بنا پر اس کے استعمال کے بعد وضو مناسب ہوا۔
اس کی نظیر غصے کے بعد وضو کا حکم ہے۔
حدیث میں ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔
(زادالمعاد: 376/4)

امام بخاری ؒ نے اونٹ کے گوشت کھانے سے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ پوری کتاب میں اس کے متعلق کوئی حدیث ہی بیان کی ہے۔
تاہم اونٹ کا گوشت کھانے سے نقض وضو کے قائل امام احمد ؒ، امام اسحاق ؒ، امام یحییٰ ؒ ابن منذر اور امام ابن خزیمہ ؒ وغیرہ ہیں۔
بعض حضرات کے نزدیک تو اونٹ کے گوشت کو محض ہاتھ لگانا ہی نقض وضو کا باعث ہے۔
چنانچہ امام ابو داود ؒ نے ان کی تردید کے لیے اپنی سنن میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 185)
امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ اکثر حضرات کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان میں خلفائے اربعہ عبد اللہ بن مسعود، ابی کعبؓ، ابن عباسؓ، ابو الدرداءؓ، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمہور تابعین اور آئمہ ثلاثہ ہیں۔
(شرح صحیح مسلم للنووي: 65/4)
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
اس کے متعلق تقض وضو کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ ہو گیا۔
فقہائے صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس سے نقض وضو کا قائل نہیں۔
لیکن محدثانہ نقطہ نظر سے اس کے منسوخ ہونے کا قطعی فیصلہ دشوار ہے، اس لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔
(حجة اللہ البالغة: 547/1)
ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کے کھانے کے بعد وضو کیا جائے۔
حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
اس کے بعد وضو نہیں ہے، لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد آپ نے وضو کرنے کا حکم دیا۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 184)
اس حدیث میں اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے کی صراحت ہے، اس لیے اس سے لغوی وضو مراد لینا یا اس حکم کو استحباب پرمحمول کرنا جیسا کہ بعض علماء کہتے ہیں صحیح نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 208