صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
78. بَابُ بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ:
باب: چاندی کو چاندی کے بدلے میں بیچنا۔
حدیث نمبر: 2177
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو، دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھو اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 510  
´کمی بیشی کے ساتھ ادھار کے بدلے نقد بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 259- مالك عن نافع عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض کو بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور ان میں سے کوئی چیز بھی ادھار کے بدلے نقد نہ بیچو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 510]

تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 2177، و مسلم 1584، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سونے چاندی کے لین دین میں اضافہ حرام ہے، چاہے نقد ہو یا ادھار۔
➋ اگر جنس علیحدہ ہو تو کرنسی کا تبادلہ جائز ہے مثلاً ریال دے کر روپے لینا یا روپے دے کر ریال وغیرہ لینا۔
➌ محمد طاہر القادری (بریلوی) نے أحمد رضا خان بریلوی سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ (12) روپے میں بیچ دے تو یہ جائز ہے۔ [بلا سُود بنکاری/عبوری خاکہ طبع سوم جولائی 1987ء ص100]
بریلوی صاحب کا اس عمل کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ صریح سود ہے۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «كل قرض جر منفعته فهو وجه من وجوه الربا» ہر وہ قرض جو نفع کھینچے، سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/350 وسنده صحيح وأخطأ من ضعفه]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 259   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1241  
´صرف کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1241]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
سونے چاندی کوبعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1241   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2177  
2177. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سونے کو سونے کے عوض مت فروخت کرو مگر برابر برابر، یعنی ایک دوسرے سے کم، زیادہ کرکے فروخت نہ کرو۔ اور چاندی کے عوض چاندی کو فروخت نہ کرو مگر برابربرابر۔ یعنی ایک دوسرے میں کمی بیشی کرکے فروخت نہ کرو۔ اسی طرح غائب چیز کو حاضر کے عوض نہ فر وخت کرو۔ یعنی ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2177]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت امام شافعی ؒ کی حجت ہے کہ اگرایک شخص کے دوسرے پر درہم قرض ہوں اور اس کے اس پر دینار قرض ہوں، تو ان کی بیع جائز نہیں کیوں کہ یہ بيعِ الكَالِي بالكالِي ہے۔
یعنی ادھار کو ادھار کے بدل بیچنا۔
اور ایک حدیث میں صراحتاً اس کی ممانعت وارد ہے اور اصحاب سننن نے ابن عمر ؓ سے نکالا کہ میں بقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا تو دیناروں کے بدل بیچتا اور درہم لیتا، اور درہم کے بدل بیچتا تو دینار لے لیتا۔
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلہ کو پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
بشرطیکہ اسی دن کے نرخ سے لے۔
اور ایک دوسرے سے بغیر لیے جدا نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2177   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2177  
2177. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سونے کو سونے کے عوض مت فروخت کرو مگر برابر برابر، یعنی ایک دوسرے سے کم، زیادہ کرکے فروخت نہ کرو۔ اور چاندی کے عوض چاندی کو فروخت نہ کرو مگر برابربرابر۔ یعنی ایک دوسرے میں کمی بیشی کرکے فروخت نہ کرو۔ اسی طرح غائب چیز کو حاضر کے عوض نہ فر وخت کرو۔ یعنی ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2177]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
مثل ذلك سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث کی طرح حدیث بیان کی جیسا کہ اسماعیلی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں وہی مضمون تھا جو حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث میں ہے، نیز یہ واقعہ حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ پیش آیا۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کا ایک واقعہ حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ بھی ہے جو آئندہ (حدیث: 2178، 2179)
میں بیان ہوگا۔
(2)
واضح رہے کہ ایک شخص نے کسی سے درہم لینے ہیں اور کسی اور نے اس سے دینار لینے ہیں تو یہ دونوں آپس میں درہم ودینار کی خریدوفروخت نہیں کرسکتے کیونکہ جب ایک طرف سے ادھار اور دوسری طرف سے نقد کی خریدوفروخت جائز نہیں تو دونوں طرف سے ادھار کی بیع کیسے درست ہوسکتی ہے۔
(فتح الباري: 481/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2177