صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
82. بَابُ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ، وَهْيَ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ وَبَيْعُ الزَّبِيبِ بِالْكَرْمِ وَبَيْعُ الْعَرَايَا:
باب: بیع مزابنہ کے بیان میں اور یہ خشک کھجور کی بیع درخت پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے اور خشک انگور کی بیع تازہ انگور کے بدلے میں ہوتی ہے اور بیع عرایا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2186
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ فِي رُءُوسِ النَّخْلِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں داؤد بن حصین نے، انہیں ابن ابی احمد کے غلام ابوسفیان نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا، مزابنہ درخت پر لگی کھجور، توڑی ہوئی کھجور کے بدلے میں خریدنے کو کہتے ہیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 493  
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . عن أبى سعيد الخدري: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة والمحاقلة. والمزابنة: اشتراء الثمر بالتمر فى رؤوس النخل، والمحاقلة: كراء الأرض بالحنطة . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دو سَودوں) مزابنہ اور محقلہ سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درختوں پر تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے خریدا جائے اور محاقلہ (مقرر) گندم کے بدلے میں زمیں کو کرائے پر دینے کو کہتے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 493]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2186، ومسلم 105/1546، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: اس پر اجماع ہے کہ راوی اپنی روایت کی جو تشریح کرتا ہے وہی قابل تسلیم ہے کیونکہ وہ اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ [التمهيد 2/313]
➋ زمین کا ایک حصہ مخصوص کرکے اس کی فصل وغیرہ کے بدلے میں زمین کرائے پر دینا تو ممنوع ہے لیکن سونے چاندی (یا رقم) کے بدلے میں جائز ہے جیسا کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2346، 2347، وصحيح مسلم 1547] اور آنے والی حدیث (162) اسی طرح کل فصل کے آدھ (نصف) وغیرہ پر زمین دینا بھی جائز ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 2328، وصحيح مسلم 1551] سعید بن المسیب رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [موطأ امام مالك 2/625 ح1356، وسنده صحيح]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس بات سے منع فرما دیں اُس سے بچنا ضروری ہے اِلا یہ کہ جواز کی کوئی دلیل یا قرینہ صحیحہ ہو۔
➍ اسلام میں ایسے سودوں کی ممانعت ہے جن میں کسی ایک فریق کے واضح نقصان کا اندیشہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 158