صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
83. بَابُ بَيْعِ الثَّمَرِ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ:
باب: درخت پر پھل، سونے اور چاندی کے بدلے بیچنا۔
حدیث نمبر: 2191
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ سَمِعْتُ بُشَيْرًا، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، وَرَخَّصَ فِي الْعَرِيَّةِ أَنْ تُبَاعَ بِخَرْصِهَا يَأْكُلُهَا أَهْلُهَا رُطَبًا"، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً أُخْرَى: إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرِيَّةِ يَبِيعُهَا أَهْلُهَا بِخَرْصِهَا يَأْكُلُونَهَا رُطَبًا، قَالَ: هُوَ سَوَاءٌ؟ قَالَ سُفْيَانُ: فَقُلْتُ لِيَحْيَى: وَأَنَا غُلَامٌ إِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَقُولُونَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا، فَقَالَ: وَمَا يُدْرِي أَهْلَ مَكَّةَ؟ قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَرْوُونَهُ عَنْ جَابِرٍ، فَسَكَتَ، قَالَ سُفْيَانُ: إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ جَابِرًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: وَلَيْسَ فِيهِ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ؟ قَالَ: لَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ یحییٰ بن سعید نے بیان کیا کہ میں نے بشیر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کو توڑی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، البتہ عریہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اندازہ کر کے یہ بیع کی جا سکتی ہے کہ عریہ والے اس کے بدل تازہ کھجور کھائیں۔ سفیان نے دوسری مرتبہ یہ روایت بیان کی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دے دی تھی۔ کہ اندازہ کر کے یہ بیع کی جا سکتی ہے، کھجور ہی کے بدلے میں۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے یحییٰ سے پوچھا، اس وقت میں ابھی کم عمر تھا کہ مکہ کے لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کی اجازت دی ہے تو انہوں نے پوچھا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ میں نے کہا کہ وہ لوگ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ سفیان نے کہا کہ میری مراد اس سے یہ تھی کہ جابر رضی اللہ عنہ مدینہ والے ہیں۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی حدیث میں یہ ممانعت نہیں ہے کہ پھلوں کو بیچنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی نہ کھل جائے انہوں نے کہا کہ نہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2191  
2191. حضرت سہیل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی بیع سے منع فرمایا، البتہ بیع عریہ کی آپ نے رخصت دی کہ اسے اندازہ کرکے فروخت کیاجاسکتا ہے تاکہ عریہ والے تازہ کھجور کھائیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے کبھی اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے عریہ کی اجازت دی کہ اندازہ کرکے اسے فروخت کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کے مالک خود انھیں رطب کی شکل میں کھاتے رہیں۔ ان دونوں روایات کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے کہا میں نے (اپنے شیخ) یحییٰ بن سعید سے عرض کیا، حالانکہ میں اس وقت کم سن بچہ تھا کہ اہل مکہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ (کیونکہ وہ تاجر پیشہ لوگ تھے، باغبانی کا پیشہ نہیں کرتے تھے۔) میں نے عرض کیا: وہ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے تھے تو وہ خاموش ہوگئے۔ سفیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2191]
حدیث حاشیہ:
تو حدیث آخر مدینہ والوں ہی پر آکر ٹھہری، حاصل یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور مکہ والوں کی روایت میں کسی قدر اختلاف ہے۔
یحییٰ بن سعید نے عرایا کی رخصت میں انداز کرنے کی اور عرایا والوں کی تازہ کھجور کھانے کی قید لگائی ہے۔
اور مکہ والوں نے اپنی روایات میں یہ قید بیان نہیں کی۔
بلکہ مطلق عریہ کو جائز رکھا۔
خیر اندازہ کرنے کی قید تو ایک حافظ نے بیان کی ہے اس کا قبول کرنا واجب ہے لیکن کھانے کی قید محض واقعی ہے نہ کہ احترازی (قسطلانی)
سفیان بن عیینہ سے ملنے والا کون تھا حافظ کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام معلوم نہیں ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2191   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2191  
2191. حضرت سہیل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی بیع سے منع فرمایا، البتہ بیع عریہ کی آپ نے رخصت دی کہ اسے اندازہ کرکے فروخت کیاجاسکتا ہے تاکہ عریہ والے تازہ کھجور کھائیں۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان نے کبھی اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا کہ آپ ﷺ نے عریہ کی اجازت دی کہ اندازہ کرکے اسے فروخت کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کے مالک خود انھیں رطب کی شکل میں کھاتے رہیں۔ ان دونوں روایات کا مفہوم ایک ہی ہے۔ سفیان نے کہا میں نے (اپنے شیخ) یحییٰ بن سعید سے عرض کیا، حالانکہ میں اس وقت کم سن بچہ تھا کہ اہل مکہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ انھوں نے جواب دیا کہ اہل مکہ کو یہ کس طرح معلوم ہوا؟ (کیونکہ وہ تاجر پیشہ لوگ تھے، باغبانی کا پیشہ نہیں کرتے تھے۔) میں نے عرض کیا: وہ حضرت جابر ؓ سے روایت کرتے تھے تو وہ خاموش ہوگئے۔ سفیان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2191]
حدیث حاشیہ:
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید اور اہل مکہ کی روایت میں تھوڑا سااختلاف ہے۔
یحییٰ بن سعید کی روایت میں بیع عرایا کے جواز کے لیے دو قیود ہیں:
٭ اندازے سے فروخت کرنا۔
٭ تازہ کھجوریں کھانے کے لیے فروخت کرنا۔
جبکہ اہل مکہ اپنی روایت میں ان قیود کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ وہ مطلق طور پر عرایا کے جواز کا رجحان رکھتے ہیں۔
اندازہ کرکے فروخت کرنے کی صراحت تو ایک ثقہ راوی نے کی ہے، اس لیے اس کا اعتبار کرنا ضروری ہے، البتہ تازہ کھجور کھانے کا ذکر محض اتفاقی ہے احترازی نہیں اگرچہ بعض حضرات اسے بطور شرط بیان کرتے ہیں جو صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 492/4)
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2191