صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
87. بَابُ إِذَا بَاعَ الثِّمَارَ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا ثُمَّ أَصَابَتْهُ عَاهَةٌ فَهُوَ مِنَ الْبَائِعِ:
باب: اگر کسی نے پختہ ہونے سے پہلے ہی پھل بیچے پھر ان پر کوئی آفت آئی تو وہ نقصان بیچنے والے کو بھرنا پڑے گا۔
حدیث نمبر: 2199
قَالَ اللَّيْثُ:حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ ثَمَرًا قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، ثُمَّ أَصَابَتْهُ عَاهَةٌ؟ كَانَ مَا أَصَابَهُ عَلَى رَبِّهِ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَتَبَايَعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، وَلَا تَبِيعُوا الثَّمَرَ بِالتَّمْرِ".
لیث نے کہا کہ مجھے سے یونس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اگر پختہ ہونے سے پہلے ہی (درخت پر) پھل خریدے، پھر ان پر کوئی آفت آ گئی تو جتنا نقصان ہوا، وہ سب اصل مالک کو بھرنا پڑے گا۔ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کو نہ بیچو، اور نہ درخت پر لگی ہوئی کھجور کو ٹوٹی ہوئی کھجور کے بدلے میں بیچو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2199  
2199. حضرت لیث سے روایت ہے وہ یونس سے ابن شہاب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے باغ خرید لیا، پھر کوئی آفت آئی تو جو نقصان ہوگا وہ مالک کے ذمے ہوگا۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے خبردی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھل اس وقت تک فروخت نہ کرو جب تک اس کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے اور درخت پر لگی تازہ کھجور، خشک کھجور کے عوض مت فروخت کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2199]
حدیث حاشیہ:

پھلوں کی پختگی سے پہلے اگر باغ فروخت کیا گیا تو فروخت کرنے والا اس صورت میں نقصان کا ذمہ دار ہوگا جب کوئی آفت آجائے اور باغ تباہ کر دے۔
اگر کوئی نقصان نہ ہوا اور پھل صحیح طور پر تیار ہوگیا تو بیع صحیح ہوگی۔
اس تفصیل کے باوجود ہمارا رجحان یہ ہے کہ پھلوں کی پختگی سے پہلے سودا نہ کیا جائے کیونکہ احادیث کے ظاہر الفاظ کا یہی تقاضا ہے۔
خلاف ورزی کرنے کی صورت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
جن احادیث میں ممانعت ہے وہ اسی احتیاط پر محمول ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کا رجحانِ جواز مشروط ہے کیونکہ جب پھل ضائع ہوگیا اور خریدار کی ادا کردہ قیمت کے مقابلے میں کوئی چیز نہ رہی تو بیچنے والے کا قیمت لینا باطل ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر تونے اپنے بھائی کو پھل کا باغ فروخت کیا اور وہ کسی آفت کے آنے سے تباہ ہوگیا تو تیرے لیے اس سے کوئی قیمت وصول کرنا حلال نہیں۔
استحقاق کے بغیر مال لینا کیونکر تیرے لیے جائز ہوسکتا ہے؟ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 3975(1554)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2199