صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
88. بَابُ شِرَاءِ الطَّعَامِ إِلَى أَجَلٍ:
باب: اناج ادھار (ایک مدت مقرر کر کے) خریدنا۔
حدیث نمبر: 2200
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: ذَكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ الرَّهْنَ فِي السَّلَفِ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ، ثُمَّ حَدَّثَنَا، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اشْتَرَى طَعَامًا مِنْ يَهُودِيٍّ إِلَى أَجَلٍ، فَرَهَنَهُ دِرْعَهُ".
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم نے ابراہیم کے سامنے قرض میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ہم سے اسود کے واسطہ سے بیان کیا کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے یہاں گروی رکھی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2200  
2200. حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2200]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ غلہ بوقت ضرورت ادھار بھی خریدا جاسکتا ہے۔
اور ضرورت لاحق ہو تو اس قرض کے سلسلہ میں اپنی کسی بھی چیز کو گروی رکھنا بھی جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس قسم کے دنیاوی معاملات غیر مسلموں سے بھی کئے جاسکتے ہیں۔
خود نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار حاصل فرمایا۔
اور آپ پر خوب واضح تھا کہ یہودیوں کے ہاں ہر قسم کے معاملات ہوتے ہیں۔
ان حالات میں بھی آپ نے ان سے غلہ ادھار لیا اور ان کے اطمینان مزید کے لیے اپنی زرہ مبارک کو اس یہودی کے ہاں گروی رکھ دیا۔
سند میں مذکورہ راوی حضرت اعمش ؒ سلیمان بن مہران کاہلی اسدی ہیں۔
بنوکاہل کے آزاد کردہ ہیں۔
بنوکاہل ایک شاخ بنواسد خزیمہ کی ہے۔
یہ 60ھ میں رے میں پیدا ہوئے اور کسی نے ان کو اٹھا کر کوفہ میں لاکر فروخت کردیا تو بنی کاہل کے کسی بزرگ نے خرید کر ان کو آزاد کر دیا۔
علم حدیث و قرات کے مشہور ائمہ میں سے ہیں اہل کوفہ کی روایات کا زیادہ مدار ان پر ہی ہے۔
148ھ میں وفات پائی۔
رحمة اللہ علیه۔
نیز حضرت اسود بھی مشہور تابعی ہیں جو ابن ہلال محاربی سے مشہور ہیں۔
عمرو بن معاذ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں۔
اور ان سے زہری نے روایت کی ہے۔
84ھ میں وفات پائی۔
رحمة اللہ علیه رحمة واسعة۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2200   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2200  
2200. حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2200]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت غلہ ادھار پر خریدا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے پاس زائد غلہ نہ ہو یا اس بنا پر یہودی سے معاملہ کیا ہوکہ کوئی مسلمان رواداری کے طور پر اس کی قیمت وصول نہ کرتا، اس لیے آپ نے انھیں زحمت دینا گوارا نہ فرمایا۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
آپ نے اس یہودی سے جو لیے تھے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اپنی گروی رکھی ہوئی زرہ قیمت دے کر واپس نہ لے سکے۔
حضرت ابو بکر ؓ نے اسے قیمت ادا کر کے زرہ واپس لی۔
(2)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے جبکہ صاحب تدبر حدیث نے اسے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور کا قرار دیا ہے۔
یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم؟ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔
(تدبر حدیث: 485/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2200