سنن ابن ماجه
كتاب الزهد -- کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
27. بَابُ : الأَمَلِ وَالأَجَلِ
باب: انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4231
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ , وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ أَبِي يَعْلَى , عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ خَطَّ خَطًّا مُرَبَّعًا , وَخَطًّا وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ , وَخُطُوطًا إِلَى جَانِبِ الْخَطِّ الَّذِي وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ , وَخَطًّا خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ , فَقَالَ:" أَتَدْرُونَ مَا هَذَا؟" , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" هَذَا الْإِنْسَانُ الْخَطُّ الْأَوْسَطُ , وَهَذِهِ الْخُطُوطُ إِلَى جَنْبِهِ الْأَعْرَاضُ تَنْهَشُهُ أَوْ تَنْهَسُهُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ , فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا أَصَابَهُ هَذَا , وَالْخَطُّ الْمُرَبَّعُ الْأَجَلُ الْمُحِيطُ , وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا ہو جاتا ہے، چوکور لکیر اس کی عمر ہے، جس نے احاطہٰ کر رکھا ہے اور باہر والی لکیر اس کی آرزو ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 4 (6417)، سنن الترمذی/صفة القیامة 22 (2454)، (تحفة الأشراف 9200)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/385)، سنن الدارمی/الرقاق 20 (2771) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: آدمی اپنی عمر سے زیادہ آرزو کرتا ہے، اور ایسے بندوبست کرتا اور ایسی عمارت بناتا ہے جن کے مکمل ہونے سے پہلے ہی اس کی عمر گزر جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4231  
´انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور لکیر کھینچی، اور اس کے بیچ میں ایک لکیر کھینچی، اور اس بیچ والی لکیر کے دونوں طرف بہت سی لکیریں کھینچیں، ایک لکیر چوکور لکیر سے باہر کھینچی اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ درمیانی لکیر انسان ہے، اور اس کے چاروں طرف جو لکیریں ہیں وہ عوارض (بیماریاں) ہیں، جو اس کو ہر طرف سے ڈستی یا نوچتی اور کاٹتی رہتی ہیں، اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری میں مبتلا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4231]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام نووی ؒ نے ریاض الصالحین میں اس مثال کی وضاحت کے لیے دو نقشے بنائے ہیں۔
ان کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا نقشہ ان دو میں سے کسی ایک کے مطابق تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اپنے پانچ اور اقوال بھی ذکر کیے ہیں اور ان کے مطابق نقشے بنائے ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباري: 11/ 258)

(2)
انسان کی زندگی میں مشکلات اور مصائب لازمی ہیں۔
جس طرح غریب آدمی مشکلات کا شکار ہوتا ہے اسی طرح امیر آدمی حتی کہ بادشاہ پر بھی مشکلات آتی ہیں اگرچہ ان کی نوعیت ان کے حالات کے مطابق ہوتی ہے۔

(3)
یہ مشکلات انسان کی آزمائش ہیں لہٰذا سیدھے راستے پر قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(4)
انسان کی خواہشات، پروگرام اور آرزوئیں بہت ہوتی ہیں ان میں کچھ پوری ہوتی ہیں کچھ نہیں ہوتیں۔
لہٰذا موت کو یاد رکھنا چاہیے جو لازماً آنی ہی ہے اور معلوم نہیں کب آجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4231   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2454  
´باب:۔۔۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2454]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آروزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں،
وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے،
لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے،
اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتاہے،
گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے،
اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2454