صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
89. بَابُ إِذَا أَرَادَ بَيْعَ تَمْرٍ بِتَمْرٍ خَيْرٍ مِنْهُ:
باب: اگر کوئی شخص خراب کھجور کے بدلہ میں اچھی کھجور لینا چاہے۔
حدیث نمبر: 2202
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ فَجَاءَهُ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ، وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمٰن نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں ایک شخص کو تحصیل دار بنایا۔ وہ صاحب ایک عمدہ قسم کی کھجور لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! ہم تو اسی طرح ایک صاع کھجور (اس سے گھٹیا کھجوروں کے) دو صاع دے کر خریدتے ہیں۔ اور دو صاع تین صاع کے بدلے میں لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ البتہ گھٹیا کھجور کو پہلے بیچ کر ان پیسوں سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 513  
´ایک ہی جنس میں کم یا زیادہ لینا سود ہے`
«. . . 394- مالك عن عبد المجيد بن سهيل عن ابن المسيب عن أبى سعيد الخدري وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكل تمر خيبر هكذا؟ فقال: لا والله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر (کے علاقے) پر عامل یعنی امیر بنایا تو وہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم دو صاع کھجوریں دے کر اس قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین ساع دے کر دو ساع لیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عام کھجوروں کو درہموں (رقم) کے بدلے میں بیچ دو پھر رقم سے اعلی قسم کی کھجوریں خرید لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 513]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2201، 2202، ومسلم 95/1592، من حديث مالك به * وفي حديث يحيى بن يحيى: بِالدَّرَاهِمِ]

تفقه:
➊ اگر جنس ایک ہی ہو تو تجارت میں ایک جنس دے کر اس کے بدلے میں وہی جنس کم یا زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 394   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2202  
2202. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2202]
حدیث حاشیہ:
اس صورت میں بیاج سے محفوظ رہے گا۔
ایسا ہی سونا کے بدلے میں دوسرا سونا کم وبیش لینے کی ضرورت ہے، تو پہلے سونے کو روپوں یا اسباب کے بدل بیچ ڈالے۔
پھر روپوں یا اسباب کے عوض دوسرا سونا لے لے۔
حافظ ؒ فرماتے ہیں:
و في الحدیث جواز اختیارطیب الطعام و جواز الوکالة في البیع و غیرہ و فیه أن البیوع الفاسدة ترد الخ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اچھے غلے کو پسند کرنا جائز ہے اور بیع وغیرہ میں وکالت درست ہے اور یہ بھی کہ بیع فاسد کو رد کیا جاسکتا ہے۔
اس حدیث میں خیبر کا ذکر آیا ہے جو یہودیوں کی ایک بستی مدینہ شریف سے شمال مشرق میں تین چار منزل کے فاصلہ پر واقع تھی۔
اس مقام پر مدینہ کے یہودی قبائل کو ان کی مسلسل غداریوں اور فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔
اور یہاں آنے کے بعد وہ دوسرے یہودیوں کو ساتھ لے کر ہر وقت اسلام کے استیصال کے لیے تدبیریں کرتے تھے۔
اس طرح خیبر عام اشتعال اور فسادات کا مرکز بنا ہوا تھا۔
ان کی ان غلط در غلط کوششوں کو پامال کرنے اور وہاں قیام امن کے لیے آنحضرت ﷺ نے محرم 7ھ میں چودہ سو جاں نثار صحابہ کرام کے ہمراہ سفر فرمایا۔
یہود خیبر نے یہ اطلاع پاکر جملہ اقوام عرب کی طرف امداد کے لیے اپنے قاصد و سفراءدوڑائے مگر صرف بنی فزارہ ان کی امداد کے نام سے آئے۔
وہ بھی موقع پاکر مسلمانوں کے اونٹوں کے گلے لوٹ کر واپس بھاگ گئے اور یہود تنہا رہ گئے۔
بڑی خون ریز جنگ ہوئی، آخر اللہ پاک نے اپنے سچے رسول ﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی اور یہودیوں کو شکست فاش ہوئی۔
اطراف میں بھی یہودیوں کے مختلف مواضعات تھے۔
وطیح، سلالم، فدک وغیرہ ان کے باشندوں نے خود بخود اپنے آپ کو رسول کریم ﷺ کے حوالہ کر دیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔
آنخضرت ﷺ نے نہایت فیاضی سے سب کو معافی دے دی ان کی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ میں کوئی دست اندازی نہیں کی گئی۔
ان کو پوری مذہبی آزادی بھی دے دی گئی اور زمین کی نصف پیداوار پر ان کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا گیا۔
اور وہاں سے غلہ کی وصولی کے لیے ایک شخص کو تحصیل دار مقرر کیا گیا۔
اسی کا ذکر اس حدیث میں مذکور ہے اور یہ بیع کا معاملہ بھی اس تحصیلدار صاحب سے متعلق ہے۔
مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2202   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2202  
2202. حضرت ابو سعید خدری ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر حاضر خدمت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیاخیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! نہیں، اللہ کی قسم ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض اور دو صاع کو تین صاع کے عوض لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کرکے پھر ان درہموں سے عمدہ کھجور خریدلیاکرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2202]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے پیش نظر سودی معاملات میں اس قسم کے حیلے کو جائز قرار دیا گیا ہے، مثلاً:
ایک عمدہ سونے کے عوض کم قیراط والے سونے کو کمی بیشی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہوتو پہلے عمدہ سونے کو روپے کے عوض فروخت کردیا جائے، پھر ان کے عوض دوسرا سونا خریدا جائے۔
ہم جنس اشیاء کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا سود ہے، خواہ نقد بنقد ہی کیوں نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور برابر، برابر لینے دینے کا حکم دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4081(1593)
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سودے کو سود قرار دیا ہے اور اسے واپس کرنے کا حکم دیا ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4083(1594)
حضرت بلال ؓ سے بھی اس قسم کا ایک واقعہ منقول ہے،اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
افسوس! یہ تو بعینہ سود ہے آئندہ ایسا مت کرنا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4087(1594)
ہم جنس اشیاء کی باہمی خریدوفروخت کے متعلق اس ضابطے کے حوالے سے آج کل یہ عام سوال کیا جاتا ہے کہ اگر ایک جنس، مثلاً:
کھجور بہتر قسم کی ہو اور دوسری کمتر کوالٹی کی ہو جیسا کہ مذکورہ واقعہ میں ہے تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہوسکتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیں عدل وانصاف کا حکم دیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر نوع کی کھجور یا گندم بنیادی طور پر انسان کی بھوک مٹاتی ہے، محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کے اعتبار سے تبادلے کی گنجائش ہے لیکن بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔
اس بنا پر تبادلہ کرتے وقت دونوں کی مقدار برابر رکھی جائے۔
عدل وانصاف کا یہی تقاضا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک نوع دوسری نوع سے بہتر ہے، اس لیے ان دونوں کا تبادلہ کرتے وقت فرق کو ملحوظ رکھا جائے۔
عام آدمی کے پاس تو ایسا کوئی آلہ یا ترازو موجود نہیں جو عدل و انصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کرسکے،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کرلو اور اسے طے شدہ نقدی کے عوض فروخت کرو پھر اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کرلو اور اسے نقدی کے عوض خرید لو۔
اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہوجائیں گے۔
کوالٹی کا فرق کتنا ہے اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے سے متعین نہیں کیا جاسکتا، قیمت کے ذریعے سے متعین کیا جاسکتا ہے، کوالٹی کے تعین کے لیے قیمت ہی ایک غیر جانبدار اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔
اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ محض وزن میں کمی بیشی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں سے ایک فریق کا حق ضرور مارا جائے گا۔
کوالٹی کا فرق متعین کرنے کے لیے وزن کو معیار بنایا گیا تو باہمی رضامندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے جو صحت بیع کے لیے ضروری ہے۔
والله أعلم. (2)
صاحب تدبر قرآن نے حسب عادت اس مقام پر بھی خلط مبحث سے کام لیا ہے۔
ان کی حدیث دانی کا یہ عالم ہے کہ لکھا ہے:
رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ کھجوروں کا مبادلہ برابر مقدار ہی میں کرنا ہوگا۔
(تدبر حدیث: 1/486)
حالانکہ اس بات کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تم ایسا مت کرو بلکہ مقدار برابر رکھو یا ایک کو قیمت سے فروخت کرکے اس قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو۔
(صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7351،7350)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2202