صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
95. بَابُ مَنْ أَجْرَى أَمْرَ الأَمْصَارِ عَلَى مَا يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ فِي الْبُيُوعِ وَالإِجَارَةِ وَالْمِكْيَالِ، وَالْوَزْنِ، وَسُنَنِهِمْ عَلَى نِيَّاتِهِمْ وَمَذَاهِبِهِمِ الْمَشْهُورَةِ:
باب: خرید و فروخت اور اجارے میں ہر ملک کے دستور کے موافق حکم دیا جائے گا اسی طرح ماپ اور تول اور دوسرے کاموں میں ان کی نیت اور رسم و رواج کے موافق۔
حدیث نمبر: 2212
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ فَرْقَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:" وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، أُنْزِلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ الَّذِي يُقِيمُ عَلَيْهِ، وَيُصْلِحُ فِي مَالِهِ، إِنْ كَانَ فَقِيرًا أَكَلَ مِنْهُ بِالْمَعْرُوفِ".
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام نے خبر دی (دوسری سند) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا کہا کہ میں نے عثمان بن فرقد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ (قرآن کی آیت) «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف‏» جو شخص مالدار ہو وہ (اپنی زیر پرورش یتیم کا مال ہضم کرنے سے) اپنے کو بچائے۔ اور جو فقیر ہو وہ نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھا لے۔ یہ آیت یتیموں کے ان سر پرستوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو ان کی اور ان کے مال کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہوں کہ اگر وہ فقیر ہیں تو (اس خدمت کے عوض) نیک نیتی کے ساتھ اس میں سے کھا سکتے ہیں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2212  
2212. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے انھوں نے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے متعلق فرمایا: جو مالدار ہو وہ (مال یتیم سے) پرہیز کرے اورجو تنگ دست ہو وہ رواج کے مطابق کھائے۔ یہ آیت کریمہ یتیم کے سرپرست کے متعلق نازل ہوئی جو اس کی ضروریات کو پورا کرتا اور اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر وہ تنگ دست فقیر ہے تو دستور کے مطابق اس کے مال سے کھائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2212]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معاشرتی رواج کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے کہ خریدوفروخت اور معاملات طے کرتے وقت ملکی دستور اور معاشرتی رواج کو ملحوظ رکھنا ہوگا بشرطیکہ وہ دستور یا رواج شریعت کے خلاف نہ ہو، مثلاً:
اگر کسی ملک میں کوئی کرنسی رائج ہے تو خریدوفروخت کے وقت دوسری کرنسی کی شرط نہ لگانے کی صورت میں رائج الوقت کرنسی ہی مراد ہوگی۔
(2)
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے تین احادیث ذکر کی ہیں:
پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سینگی لگواتے وقت کوئی اجرت وغیرہ طے نہیں کی بلکہ عرف پر اعتماد کرتے ہوئے ایک صاع کھجور ادا کرنے کا حکم دیا، نیز ابو طیبہ ؓ کے مالک اس سے کچھ زیادہ محصول لیتے تھے رسول اللہ ﷺ نے اسے کم کروایا تاکہ رواج اور دستور کے مطابق ہوجائے۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہند ؓ کو حضرت ابو سفیان ؓ کا مال لینے کی اجازت تو دی لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ اسے عرف اور دستور پر چھوڑ دیا، یعنی اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق جو علاقے کا رواج اور چلن ہے اس کے مطابق مال لینے کا حکم دیا۔
اس میں عرفی حیثیت ہی مدنظر رکھی جائے گی۔
تیسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
یتیم کے سرپرست اگر نادار اور غریب ہیں تو وہ اس مال میں سے جس کی وہ دیکھ بال کرتے ہیں، دستور کے مطابق کھا سکتے ہیں، یعنی اگر دستور معروف ہے تو دین ہے اور اگر دین کے مخالف ہے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2212