سنن نسائي
ذكر الفطرة -- ابواب: فطری (پیدائشی) سنتوں کا تذکرہ
29. بَابُ : الْبَوْلِ فِي الطَّسْتِ
باب: طشت میں پیشاب کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 33
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: أَنْبَأَنَا أَزْهَرُ، أَنْبَأَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: يَقُولُونَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى إِلَى عَلِيٍّ" لَقَدْ دَعَا بِالطَّسْتِ لِيَبُولَ فِيهَا فَانْخَنَثَتْ نَفْسُهُ". وَمَا أَشْعُرُ فَإِلَى مَنْ أَوْصَى، قَالَ الشَّيْخُ: أَزْهَرُ هُوَ ابْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) علی رضی اللہ عنہ کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ (آپ فوت ہو گئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی؟

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2741)، المغازي 83 (4459)، صحیح مسلم/الوصیة 5 (1636)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 64 (1626)، (تحفة الأشراف: 15970)، مسند احمد 6/32، ویأتي عند المؤلف في الوصایا 2 (رقم: 3654) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 33  
´طشت میں پیشاب کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) علی رضی اللہ عنہ کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ (آپ فوت ہو گئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی؟ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 33]
33۔ اردو حاشیہ:
«طست» ایک تھال کی طرح کا برتن ہوتا تھا جس کا پیندہ قریب ہوتا تھا اور منہ کھلا۔ اس قسم کے برتن میں پیشاب کرنے سے چھینٹے پڑنے کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے یہ باب قائم فرمایا کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے، چھینٹے نہ پڑیں تو کوئی حرج نہیں۔
➋ اس حدیث میں وصیت سے وصیت خلافت مراد ہے جیسا کہ روا فض کا عقیدہ ہے، اسی لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ وصیت تو وفات کے وقت ہوتی ہے اور اس وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ وہیں آپ کی وفات ہوئی۔ [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1389]
لہٰذا وصیت کب کی؟ اور کس کو کی؟ یعنی آپ نے کوئی وصیت نہیں کی، نہ آپ کو اس کا موقع ہی ملا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 33