صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
104. بَابُ بَيْعِ التَّصَاوِيرِ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا رُوحٌ وَمَا يُكْرَهُ مِنْ ذَلِكَ:
باب: غیر جاندار چیزوں کی تصویر بیچنا اور اس میں کون سی تصویر حرام ہے۔
حدیث نمبر: 2225
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ، إِنِّي إِنْسَانٌ، إِنَّمَا مَعِيشَتِي مِنْ صَنْعَةِ يَدِي، وَإِنِّي أَصْنَعُ هَذِهِ التَّصَاوِيرَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا أُحَدِّثُكَ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فَإِنَّ اللَّهَ مُعَذِّبُهُ حَتَّى يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيهَا أَبَدًا، فَرَبَا الرَّجُلُ رَبْوَةً شَدِيدَةً وَاصْفَرَّ وَجْهُهُ"، فَقَالَ: وَيْحَكَ إِنْ أَبَيْتَ إِلَّا أَنْ تَصْنَعَ، فَعَلَيْكَ بِهَذَا الشَّجَرِ كُلِّ شَيْءٍ لَيْسَ فِيهِ رُوحٌ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: سَمِعَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، مِنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ هَذَا الْوَاحِدَ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انہیں عوف بن ابی حمید نے خبر دی، انہیں سعید بن ابی حسن نے، کہا کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا، اور کہا کہ اے ابوعباس! میں ان لوگوں میں سے ہوں، جن کی روزی اپنے ہاتھ کی صنعت پر موقوف ہے اور میں یہ مورتیں بناتا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر فرمایا کہ میں تمہیں صرف وہی بات بتلاؤں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس نے بھی کوئی مورت بنائی تو اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب کرتا رہے گا جب تک وہ شخص اپنی مورت میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکتا (یہ سن کر) اس شخص کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ افسوس! اگر تم مورتیں بنانی ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی جس میں جان نہیں ہے مورتیں بنا سکتے ہو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے نضر بن انس سے صرف یہی ایک حدیث سنی ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1751  
´مصوروں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی تصویر بنائی اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتا رہے گا یہاں تک کہ مصور اس میں روح پھونک دے اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا، اور جس نے کسی قوم کی بات کان لگا کر سنی حالانکہ وہ اس سے بھاگتے ہوں ۱؎، قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1751]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی وہ لوگ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی بات سنے،
پھر بھی اس نے کان لگاکر سنا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1751   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5024  
´خواب کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تصویر بنائے گا، اس کی وجہ سے اسے (اللہ) قیامت کے دن عذاب دے گا یہاں تک کہ وہ اس میں جان ڈال دے، اور وہ اس میں جان نہیں ڈال سکتا، اور جو جھوٹا خواب بنا کر بیان کرے گا اسے قیامت کے دن مکلف کیا جائے گا کہ وہ جَو میں گرہ لگائے ۱؎ اور جو ایسے لوگوں کی بات سنے گا جو اسے سنانا نہیں چاہتے ہیں، تو اس کے کان میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5024]
فوائد ومسائل:

تصویر سے مراد کسی جاندار کی تصویر بنانا ہے۔
یا ایسی تصویریں بھی اس میں شمار ہوسکتی ہیں۔
جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں۔
خواہ کسی درخت کی ہو یا پہاڑ وغیرہ کی۔


یہ تصویریں ہاتھ سے بنائی جایئں۔
یا کیمرے وغیرہ سے سب اسی ضمن میں آتی ہیں۔
کیمرے کی تصاویر کو جائز بتانے والی تاویلات بے معنی ہیں۔
صاحب ایمان کو نبی کریمﷺ کے ظاہر فرامین پر بے چون وچرا ایمان رکھنا اورعمل کرنا چاہیے۔
(اللہ عزوجل تصویر کے فتنے سے محفوظ فرمائے۔
آمین)


اپنی طرف سے بنا بنا کر جھوٹے خواب سنانا۔
اوروں کے نقل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
اور جب اس ذریعے سے مقصود لوگوں کے دین وایمان کے ساتھ کھیلنا ہو تو اس کی قباحت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
جیسا کہ نام نہاد جاہل صوفیوں اور پیروں کا وتیرہ ہے۔


دوسروں کی پوشیدہ اور خاص باتیں سننے کی کوشش کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5024   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2225  
2225. حضرت سعید بن ابو الحسن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ان کے ہاں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو عباس!میں ایک ایساانسان ہوں جسکا پیشہ صرف دستکاری ہے۔ میں یہ تصویریں بناتا ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں تجھے وہی بات کہوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے عذاب دیتا رہے گا تاآنکہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ کبھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔ یہ سن کر اس شخص کی سانس رک گئی اور چہرہ فق ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے کہا: تیرا بھلاہو!اگر تجھے تصویریں بنانے پر اصرار ہے تو درختوں یا ان چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جن میں روح نہیں ہے۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے حضرت نضر بن انس ؓ سے یہی ایک حدیث سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2225]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس کو کتاب اللباس میں عبدالاعلیٰ سے، انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے، انہوں نے نضر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے نکالا۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے مورتوں کی کراہت اور حرمت نکالی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2225   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2225  
2225. حضرت سعید بن ابو الحسن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ان کے ہاں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو عباس!میں ایک ایساانسان ہوں جسکا پیشہ صرف دستکاری ہے۔ میں یہ تصویریں بناتا ہوں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں تجھے وہی بات کہوں گا جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے عذاب دیتا رہے گا تاآنکہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ کبھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔ یہ سن کر اس شخص کی سانس رک گئی اور چہرہ فق ہوگیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے کہا: تیرا بھلاہو!اگر تجھے تصویریں بنانے پر اصرار ہے تو درختوں یا ان چیزوں کی تصویریں بنا لیا کر جن میں روح نہیں ہے۔ ابو عبداللہ(امام بخاری) نے کہا کہ سعید بن ابی عروبہ نے حضرت نضر بن انس ؓ سے یہی ایک حدیث سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2225]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذی روح کی تصویر بنانا حرام ہے، خواہ وہ ہاتھ سے ہو یا کیمرے سے، وہ مجسم ہویا کاغذ پر پرنٹ ہو، کسی حالت میں ذی روح کی تصویر بنانا درست نہیں۔
اس بنا پر تصویر کشی اور فوٹو گرافی کو بطور کاروبار اختیار کرنا بھی شرعاً ناجائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جو آدمی آیا اس کا ذریعہ معاش ہی تصویر کشی تھا، اس پر اسے وعید سنائی گئی۔
ہاں، حضرت ابن عباس کی نصیحت سے امام بخاری ؒ نے یہ استنباط کیا ہے کہ غیر ذی روح کی تصاویر بنانا اور ان کی خریدوفروخت جائز ہے۔
مذکورہ عنوان میں اس کے جائز ہونے کو بیان کیا گیاہے۔
(2)
امام بخاری نے آخر میں جس حدیث کا حوالہ دیا ہے اسے خود ہی آگے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اس کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے دنیا میں تصویر کشی کی قیامت کے دن اسے تیار کردہ تصویر میں روح پھونکنے کے متعلق کہا جائے گا لیکن وہ کسی صورت بھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5963)
ایک رویت میں ہے:
جس نے تصویر بنائی اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7042)
تصویر کشی کے متعلق ہم اپنا موقف کتاب اللباس میں بیان کریں گے۔
بإذن الله.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2225