سنن نسائي
صفة الوضوء -- ابواب: وضو کا طریقہ
122. بَابُ : الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ
باب: آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 174
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، قال: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْمُطَّلِبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتَوَضَّأُ مِنْ طَعَامٍ أَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَلَالًا لِأَنَّ النَّارَ مَسَّتْهُ، فَجَمَعَ أَبُو هُرَيْرَةَ حَصًى، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَدَدَ هَذَا الْحَصَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَوَضَّئُوا مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: کیا میں اس کھانے سے وضو کروں جسے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں حلال پاتا ہوں، محض اس لیے کہ وہ آگ سے پکا ہوا ہے؟ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کچھ کنکریاں جمع کیں اور کہا: ان کنکریوں کی تعداد کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے پکی چیزوں سے وضو کرو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 14614)، مسند احمد 2/529 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث485  
´آگ میں پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ پر پکی ہوئی چیزوں کے استعمال سے وضو کرو، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیا ہم گرم پانی استعمال کرنے سے بھی وضو کریں؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھتیجے! جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنو تو اس پر باتیں مت بناؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 485]
اردو حاشہ:
(1)
جس چیز میں آگ تبدیلی کردے اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جسے آگ پر پکا کر یا بھون کر تیار کیا گیا ہو۔

(2)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ یہ حکم وجوبی نہیں ہے کیونکہ انھوں نے خود رسول اللہ ﷺ کو گوشت کھا کر دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
اس لیے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کے لیے سوال کیا۔
لیکن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے غالباً آپ ﷺ کا یہ عمل نہیں دیکھا اس لیے وہ اپنے موقف پر قائم رہے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس اجازت کا علم تو ہو لیکن وہ چاہتے ہوں کہ لوگ افضلیت کو اختیار کریں۔

(3)
جب حدیث میں کسی حکم کو عام رکھا گیا ہو تو اسے عام ہی سمجھنا چاہیے حتی کہ دوسرے دلائل سے معلوم ہوجائے کہ فلاں صورت اس عموم میں شامل نہیں۔

(4)
آئندہ باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم وجوبی نہیں یعنی آگ کی پکی ہوئی چیز کھا پی کروضو کرنا لازم نہیں بہتر اور افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 485